مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ختم کرنے والا تمام (ف 1) نبیوں کا اور ہے ۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
1۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ : یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ زید کو متبنّٰی بنایا، مگر وہ آپ کے بیٹے نہیں، نہ آپ اس کے حقیقی باپ ہیں، اس لیے انھیں زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ ہی کہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا اتنی دیر زندہ نہیں رہا کہ بلوغت کی عمر کو پہنچے۔ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے قاسم، طیب اور طاہر پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہو گئے۔ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا سے ابراہیم پیدا ہوئے، وہ بھی دودھ پینے ہی کی عمر میں فوت ہو گئے، بیٹیاں چار پیدا ہوئیں، جو خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے تھیں، یعنی زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنھن ، تین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فوت ہو گئیں اور فاطمہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعد فوت ہو گئیں۔ (ابن کثیر) 2۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ ....: اس ایک آیت میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کر رہے تھے یا کر سکتے تھے۔ پہلا اعتراض یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا، جب کہ بیٹے کی بیوی سے نکاح کو خود ہی حرام کہتے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا ’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں‘‘ یعنی آپ نے جس شخص (زید) کی مطلقہ سے نکاح کیا ہے وہ آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں، تم خود جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں، تو وہ بہو کیسے بن گئی؟ دوسرا اعتراض یہ ہو سکتا تھا کہ متبنّٰی حقیقی بیٹا نہ سہی، مگر اس کی بیوی سے نکاح زیادہ سے زیادہ جائز تھا، آخر اس کا کرنا ضروری تو نہیں تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا ’’اور لیکن وہ اللہ کا رسول ہے‘‘ یعنی رسول ہونے کی وجہ سے اس کی ذمہ داری ہے کہ جن رسوم کی وجہ سے حلال چیزوں کو تم نے حرام کر رکھا ہے، ان کے باطل ہونے کا پیغام اپنی زبان کے ساتھ ہی نہیں اپنے عمل کے ساتھ بھی پہنچائے۔ پھر مزید تاکید فرمائی کہ یہ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو یہ پیغام پہنچائے۔ اس لیے آپ پر لازم ہے کہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کا ہر پیغام پہنچا دیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، یعنی اسے خوب معلوم ہے کہ جاہلیت کی کس رسم کو کس طرح ختم کرنا ہے۔ 3۔ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ....: یہ آیت صریح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں، جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بالاولیٰ نہیں ہو سکتا، کیونکہ نبی عام ہے اور رسول خاص ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے جب کہ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے متعلق بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے متواتر احادیث آئی ہیں اور آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کذّاب قرار دیا، ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِيْ بِالْمُشْرِكِيْنَ وَحَتّٰی يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ وَ إِنَّهُ سَيَكُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ كَذَّابُوْنَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ )) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذّابون : ۲۲۱۹، و قال الألباني صحیح ] ’’قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا : (( أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ )) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضی اللّٰہ عنہ : ۲۴۰۴ ] ’’تم مجھ سے اس مرتبے پر ہو جس پر ہارون( علیہ السلام ) موسیٰ( علیہ السلام ) سے تھے، مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الرِّسَالَةَ وَ النُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَ لَا نَبِيَّ، قَالَ فَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَی النَّاسِ، فَقَالَ لٰكِنِ الْمُبَشِّرَاتُ، فَقَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! وَ مَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ وَ هِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ )) [ ترمذي، الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ و بقیت المبشرات : ۲۲۷۲، و قال الألباني صحیح الإسناد ] ’’رسالت اور نبوت ختم ہو گئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔‘‘ یہ بات لوگوں پر شاق گزری تو آپ نے فرمایا : ’’لیکن مبشرات باقی ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مبشرات کیا ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہے۔‘‘ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ مَثَلِيْ وَ مَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِيْ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَ أَجْمَلَهُ، إِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَ يَعْجَبُوْنَ لَهُ، وَ يَقُوْلُوْنَ هَلَّا وُضِعَتْ هٰذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ )) [ بخاري، المناقب، باب خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۳۵۳۵ ] ’’میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے ایک مکان بنایا، اسے ہر لحاظ سے خوب صورت بنایا، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور اس پر تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ تو میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں۔‘‘ یہ تمام احادیث اور دوسری بہت سی احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ رہا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول تو وہ ختم نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ انھیں نبوت آپ سے پہلے مل چکی ہے۔ اب وہ آپ کے امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر چلیں گے۔ آج تک پوری امت کا یہی متفق علیہ عقیدہ ہے، اس لیے ختم نبوت کا منکر قطعی کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔ 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہونے اور خاتم النّبیین رسول ہونے کے درمیان ایک اور مناسبت بھی ہے، جو صحابی رسول عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے اور وہ مناسبت اللہ تعالیٰ کے’’ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا ‘‘ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انھوں نے فرمایا : (( مَاتَ صَغِيْرًا، وَ لَوْ قُضِيَ أَنْ يَّكُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَ لٰكِنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدَهُ )) [بخاري، الأدب، باب من سمی بأسماء الأنبیاء : ۶۱۹۴ ] ’’وہ چھوٹی عمر ہی میں فوت ہو گئے اور اگر فیصلہ ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہو تو آپ کا بیٹا زندہ رہتا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ یہ بات اگرچہ ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، مگر یہ اپنی رائے سے کہنا مشکل ہے، کیونکہ نبی کا بیٹا نبی ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے تھے۔