إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا
جب وہ پر تمہارے اوپر اور تمہارے نیچے (یعنی وادی مدینہ) کے نشیب وفراز سے آئے اور جب آنکھیں ڈگمگانے لگیں اور دل حلق تک آپہنچے ، اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح خیال کرنے لگے
1۔ اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ: اس سے مراد مدینہ کا بالائی حصہ، یعنی مشرقی جانب ہے۔ اس طرف سے عیینہ بن حصن کی قیادت میں قبیلہ غطفان، عوف بن مالک کی قیادت میں قبیلہ ہوازن اور طلیحہ بن خویلد اسدی کی قیادت میں نجد کے قبائل آئے اور ان کے ساتھ بنو نضیر کے یہودی بھی مل گئے۔ 2۔ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ : نیچے کی جانب سے مراد مدینے کا مغربی حصہ ہے۔ اس طرف سے ابوسفیان بن حرب کی قیادت میں کفار مکہ اور کچھ دوسرے لوگ آئے۔ عین حالت جنگ میں بنو قریظہ نے بھی صلح توڑ دی اور دشمن کے ساتھ مل گئے۔ 3۔ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ: ’’ زَاغَ يَزِيْغُ زَيْغًا ‘‘(ض) کامعنی ہے ’’مَالَ‘‘ یعنی جھکنا، ٹیڑھا ہونا۔ سورۂ نجم میں ہے : ﴿ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى ﴾ [ النجم : ۱۷ ] ’’نہ نگاہ ادھر ادھر ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آنکھ کے اوپر نیچے اور دائیں بائیں کی جہتوں میں حرکت کرنے کی خاص کیفیت رکھی ہے، جب زیادہ خوف یا گھبراہٹ آ پڑے تو نگاہ ان جہتوں سے پھر جاتی ہے، پھر کبھی وہ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ﴾ [ الأنبیاء : ۹۷ ] ’’تو اچانک یہ ہو گا کہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی جنھوں نے کفر کیا۔‘‘ کبھی ایک ہی طرف پھری ہوئی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے اور کبھی بے اختیار گھومنے لگتی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے : ﴿ تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ﴾ [الأحزاب : ۱۹ ] ’’ایسے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہیں جس پر موت کی غشی طاری کی جا رہی ہو۔‘‘ مراد خوف کی شدت ہے۔ 4۔ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ : ’’ الْحَنَاجِرَ ‘‘ ’’حَنْجَرَةٌ‘‘ کی جمع ہے، حلق کا آخری حصہ۔ خوف کی شدت کی تصویر کھینچی ہے، جیسے دل شدید دکھڑکن اور گھبراہٹ کی وجہ سے اپنی جگہ چھوڑ کر حلق تک آ پہنچا ہو۔ بقاعی نے کہا، ہو سکتا ہے یہ تشبیہ کے بجائے حقیقت ہو کہ طحال اور پھیپھڑا پھول کر دل کو گلے کی طرف دھکیل دیں، اس لیے بزدل کو کہتے ہیں : ’’ اِنْتَفَخَ مَنْخِرُهُ أَيْ رِئَتُهُ ‘‘ یعنی اس کا پھیپھڑا پھول گیا۔ خوف کی وجہ سے دل گلے کی طرف جانے کی وجہ سے بعض اوقات سانس بند ہو کر آدمی کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( شَرُّ مَا فِيْ رَجُلٍ شُحٌّ هَالِعٌ ، وَجُبْنٌ خَالِعٌ )) [ مسند أحمد :2؍ 320، ح : ۸۲۸۳، عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، صحیح ] ’’بد ترین چیز جو آدمی میں ہے، وہ شدید حرص ہے جو بے حوصلہ بنا دینے والی ہے اور بزدلی ہے جو دل نکال دینے والی ہے۔‘‘ 5۔ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا: اس سے مراد یا تو کمزور ایمان والے لوگ ہیں، کیونکہ پختہ ایمان والوں کا ذکر آگے آ رہا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّا اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًا ﴾ [الأحزاب : ۲۲ ] ’’اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اوراس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔‘‘ ایسے کمزور ایمان والے لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ اب کے بار نہیں بچیں گے۔ یا سبھی مومن مراد ہیں اور کئی طرح کے گمانوں سے مراد وہ گمان ہیں جو بے اختیار اس موقع پر دل میں آجاتے ہیں، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۲۱۴) اور سورۂ یوسف (۱۱۰) میں ہے۔