سورة لقمان - آیت 29

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تونے نہیں دیکھا کہ اللہ دن میں رات اور رات میں دن داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چان کو مسخر کیا ہے ۔ ہر ایک ایک وقت معین تک چلتا ہے اور یہ کہ جو تم کرتے ہو اللہ کو (اس کی ساری) خبر ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۷) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ایک جان کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ جب دن بڑھنے لگتے ہیں تو ہر روز رات کا ایک حصہ دن میں شامل ہو جاتا ہے، پھر سردیوں کی آمد کے ساتھ دن کا وہی حصہ رات میں شامل ہوتا جاتا ہے۔ دن کو رات اور رات کو دن کا حصہ بنا دینے والے کے لیے تمھاری موت کے بعد حیات بالکل معمولی بات ہے۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ رات کی تاریکی کو دن کی روشنی پر اور دن کی روشنی کو رات کی تاریکی پر لے آتا ہے۔ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ كُلٌّ يَّجْرِيْ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى: حافظ صاحبان توجہ فرمائیں کہ پورے قرآن مجید میں ’’ كُلٌّ يَّجْرِيْ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ اسی مقام پر ہے۔ دوسرے تمام مقامات پر’’ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ ہے۔ یہ دوبارہ زندگی کے ممکن ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ یعنی انسان سے کہیں بڑی مخلوق سورج اور چاند کا اس طرح مسخر ہونا کہ مدت ہائے دراز سے اسی طرح چل رہے ہیں اور اس وقت تک چلتے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ ’’ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ (ایک مقرر وقت تک) کے لفظ میں کئی چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ رات دن کی روزانہ کی گردش میں یہ دونوں صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک چلتے ہیں، پھر اسی سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا روزانہ کا یہ سفر مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف رہٹ کی طرح جاری رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ طلوع و غروب کے وقت کے لحاظ سے چاند ایک ماہ میں اپنا سفر پورا کر کے اسی وقت طلوع ہوتا ہے جس وقت وہ پچھلے ماہ طلوع ہوا تھا اور سورج سال کے بعد عین اسی وقت طلوع ہوتا ہے جس وقت وہ پچھلے سال طلوع ہوا تھا۔ تیسری یہ کہ سورج اور چاند اس وقت تک چل رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردش ختم ہونے کے لیے مقرر فرمایا ہے اور وہ قیامت کا دن ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (1) وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ ﴾ [التکویر : ۱، ۲ ] ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔‘‘ آیات کے سیاق کے لحاظ سے یہ معنی یہاں زیادہ مناسب ہے، اس لیے اکثر مفسرین نے یہاں ’’ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ سے قیامت کا دن ہی مراد لیا ہے۔ 3۔ یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اس مقام پر ’’ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جب کہ دوسرے مقامات پر ’’ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى‘‘ استعمال فرمایا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ سلیمان الجمل نے فرمایا : ’’یہاں اللہ تعالیٰ نے ’’ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ فرمایا ہے، جب کہ سورۂ فاطر اور سورۂ زمر (اور رعد) میں ’’ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ فرمایا ہے۔ کیونکہ یہاں یہ لفظ دو ایسی آیات کے درمیان آیا ہے جن میں اس انتہا کا ذکر ہے جب مخلوق ختم ہو گی، چنانچہ اس سے پہلے’’ مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ ‘‘ ہے اور بعد میں ’’ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا يَوْمًا ‘‘ ہے، دونوں آیات کائنات کے اس نظام کے خاتمے پر دلالت کر رہی ہیں اور سورۂ فاطر اور زمر میں یہ بات نہیں، کیونکہ سورۂ فاطر میں نہ خلق کی ابتدا کا ذکر ہے نہ انتہا کا اور سورۂ زمر میں ابتدا کا ذکر ہے انتہا کا نہیں، اس لیے وہاں ’’لام‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا کہ سورج اور چاند جس طرح چلتے دکھائی دے رہے ہیں یہ ایک مقرر وقت پر پہنچنے کے لیے چل رہے ہیں۔ ‘‘ وَّ اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ : اس کا عطف ’’ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ ‘‘ پر ہے۔ ’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘ کا معنی تھا ’’کیا تم نے نہیں جانا؟‘‘ یعنی تم یقیناً جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور… یہ بھی جانتے ہو کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔