سورة لقمان - آیت 25

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور جو تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ؟ تو کہیں گے کہ اللہ نے تو کہہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے ۔ پر ان میں بہت لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ....: اس سے پہلے مشرکین کے اللہ تعالیٰ کے متعلق مجادلہ کا ذکر فرمایا، اب ان کے مسکت جواب کا ذکر ہے کہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پید اکیا ہے، تو وہ یقیناً یہی کہیں گے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اب اس اقرار کے بعد ان کے پاس جھگڑنے کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ ’’أَلْمَرْءُ يُؤْخَذُ بِإِقْرَارِهِ‘‘ ’’آدمی اپنے اقرار کے ساتھ پکڑا جاتا ہے۔‘‘ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ: آپ فرمائیں کہ جب تم نے مان لیا کہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جس میں تمھارے بنائے معبود بھی شامل ہیں، تو تمام حمد اور ہر خوبی کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ٹھہرا، پھر تم ہر خوبی کے مالک کو چھوڑ کر اس کی عبادت کیوں کرتے ہو جس میں اپنی کوئی خوبی ہے ہی نہیں؟ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، یا جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب اور نتیجہ کیا ہے، مثلاً جب انھوں نے اعتراف کر لیا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، تو پھر انھیں لازماً ماننا ہوگا کہ مالک بھی وہی ہے، رب بھی وہی ہے، حاکم اور شارع بھی وہی ہے، عبادت اور بندگی کا حق دار بھی وہی ہے، دعا اور فریاد بھی اسی سے کرنی چاہیے۔ یہ علم و عقل سے کتنی بعید بات اور کتنا بڑا تناقض ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو اور معبود اس کی مخلوق میں سے کسی کو بنا لیا جائے۔ 4۔ یہ جو فرمایا کہ ’’ان کے اکثر نہیں جانتے‘‘ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین میں سے کچھ ایسے بھی تھے اور ہوتے ہیں کہ بات واضح ہونے پر سمجھ لیتے اور مان جاتے ہیں۔ ان کا ذکر آگے ’’ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ‘‘ میں آ رہا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو جانتے ہیں مگر ضد اور عناد کی وجہ سے مانتے نہیں۔