وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
اور مت موڑ اپنے گال واسطے لوگوں کے اور زمین پر اترا (ف 1) کر نہ چل بےشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا
1۔ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ : ’’صَعَرٌ‘‘ اونٹ کو لگنے والی ایک بیماری، جس سے وہ اپنی گردن ایک طرف پھیرے رکھتا ہے۔ اس سے باب ’’تفعیل‘‘ تکلف کے لیے ہے۔ یعنی تکلف سے ایک طرف منہ پھیرے رکھنا۔ یہ انداز حقارت کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عمرو بن حُنَیّ تغلبی نے اپنے بعض بادشاہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : وَ كُنَّا إِذَا الْجَبَّارُ صَعَّرَ خَدَّهُ أَقَمْنَا لَهُ مِنْ مَيْلِهِ فَتَقَوَّمَا ’’اور ہم ایسے تھے کہ جب کسی جبار نے اپنا رخسار ٹیڑھا کیا، تو ہم نے اس کی ٹیڑھ سیدھی کر دی، سو تو بھی سیدھا ہو جا۔‘‘ ( فَتَقَوَّمَا امر كا صيغہ ہے (ابو عبید) اور آخر ميں الف اشباع كے ليے ہے) 2۔ احکام کی وصیت کے بعد لقمان علیہ السلام نے چند آداب و اخلاق کی وصیت فرمائی، فرمایا لوگوں کے لیے اپنا رخسار ٹیڑھا نہ رکھ، یعنی انھیں حقیر سمجھ کر ایسا نہ کر جیسے متکبر اور مغرور لوگ کرتے ہیں، بلکہ تواضع اور نرمی اختیار کر، جیسا کہ عقل مند لوگوں کا شیوہ ہے۔ تحقیر کے اس انداز سے منع کرنے میں زبان یا ہاتھ کے ساتھ کسی کی تحقیر سے منع کرنا بالاولیٰ شامل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا: ﴿ فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ ﴾ [ بني إسرائیل : ۲۳ ] ’’ماں باپ کو ’’اُف‘‘ نہ کہو۔‘‘ مراد کسی بھی طرح تکلیف پہنچانے سے منع کرنا ہے۔ 3۔ وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا : یہاں ایک سوال ہے کہ چلا زمین ہی پر جاتا ہے، پھر خاص طور پر اس کا ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تمام لوگوں کی طرح اس زمین سے تمھاری پیدائش ہے، اسی میں تم نے دفن ہونا ہے اور دوسرے تمام لوگ بھی اسی زمین پر چل رہے ہیں، پھر تمھارا دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو ان سے برتر سمجھنا اور اکڑ کر چلنا تمھیں کس طرح زیب دیتا ہے؟ (واللہ اعلم) سورۂ بنی اسرائیل (۳۷) میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ 4۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۳۶)۔