وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
اور ہم نے لقمان کو عقل مندی دی کہ اللہ کا شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے اور جو کوئی کفر کرتا ہے اللہ بےپرواہ قابل تعریف (ف 2) ہے
1۔ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ : تفاسیر میں لقمان کے متعلق جو کچھ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں، روح المعانی میں ہے : ’’وہب نے کہا، وہ ایوب علیہ السلام کے بھانجے تھے۔ مقاتل نے کہا، ان کے خالہ زاد تھے۔ عبدالرحمن سہیلی نے کہا، وہ عنقا بن سرون کے بیٹے تھے۔ بعض نے کہا، وہ آزر کی اولاد سے تھے، ہزار برس زندہ رہے اور داؤد علیہ السلام کو پایا اور ان سے علم حاصل کیا۔ ان کے مبعوث ہونے سے پہلے فتویٰ دیتے تھے، جب وہ مبعوث ہوئے تو فتویٰ دینا چھوڑ دیا۔ ان سے پوچھا گیا تو فرمانے لگے، جب مجھ سے کفایت کی گئی تو کیا میں اکتفا نہ کروں۔ بعض نے کہا، وہ بنی اسرائیل کے ایک قاضی تھے۔ یہ بات واقدی سے نقل کی گئی ہے، مگر انھوں نے کہا، ان کا زمانہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان تھا۔ عکرمہ اور شعبی نے کہا، وہ نبی تھے۔ اکثر کا کہنا ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں تھے، نبی نہیں تھے اور ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ آزاد تھے یا غلام۔ اکثر کا کہنا ہے کہ وہ غلام تھے۔ ایک اختلاف اور ہے، بعض نے کہا، حبشی تھے، یہ ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے اور ابن مردویہ نے یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ مجاہد نے ان کے بارے میں بیان کیا کہ وہ موٹے ہونٹوں اور پاؤں کے سیدھے تلوے والے تھے۔ بعض نے کہا، وہ نُوبی تھے، پھٹے ہوئے پاؤں اور موٹے ہونٹوں والے تھے۔ یہ ابن عباس، ابن مسیب اور مجاہد سے منقول ہے۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا، میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے کہا، آپ کو لقمان کے بارے میں کیا خبر پہنچی ہے؟ انھوں نے فرمایا، وہ چھوٹے قد، چپٹی ناک والے نوبی (حبشی) تھے۔ ابن ابی حاتم، ابن جریر اور ابن المنذر نے ابن المسیّب سے بیان کیا ہے، انھوں نے فرمایا کہ لقمان مصر کے سیاہ فام لوگوں میں سے کالے رنگ والے اور بڑے ہونٹوں والے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں حکمت عطا کی، مگر نبوت نہیں دی۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کا پیشہ کیا تھا۔ چنانچہ خالد بن ربیع نے کہا، وہ نجار (راء کے ساتھ) یعنی ترکھان تھے اور معانی الزجاج میں ہے، وہ نجاد تھے (دال کے ساتھ، بروزن کتاب، جو بچھونے اور گدے وغیرہ بناتے اور سیتے ہیں)۔ ابن ابی شیبہ نے اور احمد نے ’’الزہد‘‘ میں اور ابن المنذر نے ابن المسیّب سے روایت کی ہے کہ وہ خیاط (کپڑے سینے والے) تھے، جو نجاد سے عام ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ وہ چرواہے تھے۔ بعض نے کہا، وہ ہر روز اپنے مالک کے لیے ایندھن کا گٹھا لاتے تھے۔‘‘ مفسر آلوسی صاحب روح المعانی یہ سب کچھ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ وَلَا وُثُوْقَ لِيْ بِشَيْءٍ مِنْ هٰذِهِ الْأَخْبَارِ وَإِنَّمَا نَقَلْتُهَا تَأْسِيًا بِمَنْ نَقَلَهَا مِنَ الْمُفَسِّرِيْنَ الْأَخْيَارِ غَيْرَ أَنِّيْ أَخْتَارُ أَنَّهُ كَانَ رَجُلًا صَالِحًا حَكِيْمًا وَلَمْ يَكُنْ نَبِيًّا‘‘ ’’یعنی مجھے ان خبروں میں سے کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے، میں نے تو انھیں صرف اس لیے نقل کیا ہے کہ جید مفسرین نے انھیں نقل کیا ہے۔ میں تو صرف اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ وہ صالح اور حکیم (و دانا) آدمی تھے، نبی نہیں تھے۔‘‘ میں نے بھی یہ سارا کلام یہ دکھانے کے لیے نقل کیا ہے کہ بعض مفسرین کس طرح بلاثبوت باتیں نقل کرتے جاتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ مجاہد، قتادہ، ابن المسیّب وغیرہ حضرات کا ہزاروں برس پہلے گزرے ہوئے لقمان کے ساتھ کوئی میل جول رہا ہے، یا انھوں نے ان تک کوئی سند بیان کی ہے۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب روایت نقل کرتے ہوئے یہ اہتمام کرتے ہیں کہ ثابت شدہ روایت ہی نقل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کے متعلق اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا اور جسے صاحب روح المعانی نے ترجیح دی ہے۔ ان کے غلام یا حبشی وغیرہ ہونے کی کوئی روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی ان کی حکمت اور دانائی کے واقعات عرب میں مشہور تھے اور جاہلی شعراء اور خطباء اپنے کلام میں ان کا ذکر کرتے تھے، جیسا کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ 2۔ شرک کی تردید میں ایک پر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ توحید کی بات صرف پیغمبروں ہی کے ذریعے سے نہیں آئی، بلکہ عقل و حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے اور پہلے عاقل اور دانا لوگ بھی یہی بات کہتے چلے آئے ہیں، چنانچہ تمھارا اپنا مشہور حکیم لقمان بھی اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔ 3۔ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ : تفسیر قاسمی میں ہے : ’’قَالَ فِي الْبَصَائِرِ الشُّكْرُ مَبْنِيٌّ عَلٰي خَمْسَةِ قَوَاعِدَ، خُضُوْعُ الشَّاكِرِ لِلْمَشْكُوْرِ وَ حُبُّهُ لَهُ وَاعْتِرَافُهُ بِنِعْمَتِهِ وَالثَّنَاءُ عَلَيْهِ بِهَا وَ أَنْ لَّا يَسْتَعْمِلَهَا فِيْمَا يَكْرَهُ، هٰذَا الْخَمْسَةُ هِيَ أَسَاسُ الشُّكْرِ وَبَنَاءُهُ عَلَيْهَا فَإِنْ عُدِمَ مِنْهَا وَاحِدَةٌ اخْتَلَّتْ قَاعِدَةٌ مِّنْ قَوَاعِدِ الشُّكْرِ وَكُلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الشُّكْرِ فَإِنَّ كَلَامَهُ إِلَيْهَا يَرْجِعُ وَ عَلَيْهَا يَدُوْرُ‘‘ ’’البصائر میں فرمایا کہ شکر کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، شکر کرنے والے کا اس کے سامنے عاجز ہونا جس کا وہ شکر ادا کر رہا ہے، اس کے ساتھ محبت کرنا، اس کی نعمت کا اعتراف کرنا، اِس پر اُس کی تعریف کرنا اور یہ کہ اس نعمت کو اس جگہ استعمال نہ کرے جہاں نعمت دینے والا پسند نہ کرتا ہو۔ یہ پانچوں چیزیں ہی شکر کی اساس ہیں اور انھی پر اس کی بنیاد ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کم ہو تو شکر کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد کم ہو جائے گی۔ جس نے بھی شکر کے بارے میں گفتگو کی ہے اس کی گفتگو کا نتیجہ یہی ہے اور وہ اسی پر گھومتی ہے۔ ‘‘ 4۔ وَ مَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ ابراہیم (۷) اور سورۂ نمل (۴۰)۔ 5۔ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ : یعنی کسی کے کفر کا اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں، کیونکہ وہ بے نیاز ہے اور وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں، کوئی شکر کرے یا نہ کرے، کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اس کی ذات محمود ہے اور تمام خوبیوں کا مالک وہی ہے، کسی میں کوئی خوبی ہے تو اس کی اپنی نہیں بلکہ اسی کی عطا کردہ ہے۔