بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ
بلکہ یہ قرآن تو کھلی آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے ۔ اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم (ف 3) ہیں
1۔ بَلْ هُوَ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: یعنی یہ قرآن پہلی کتابوں کو پڑھ کر تصنیف کی ہوئی کتاب نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ جس میں دو نمایاں اوصاف ہیں، ایک یہ کہ یہ آیات بینات ہیں، یعنی ایسا واضح معجزہ ہیں جن کا جواب نہ کوئی لا سکا ہے نہ لا سکے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۲۳ ] ’’اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔‘‘ دوسرا وصف یہ کہ پہلی تمام کتابیں کسی نہ کسی چیز میں لکھی ہوئی تھیں اور انھیں صرف لکھ کر محفوظ کیا گیا تھا، جب کہ یہ قرآن اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہے۔ اگرچہ اسے لکھا بھی گیا ہے مگر یہ لکھے ہوئے کا محتاج نہیں اور یہ قرآن مجید کی خصوصیت ہے کہ اسے لانے والا اُمّی ہے، جو لکھے ہوئے سے پڑھتا ہی نہیں، بلکہ یہ کتاب اس کے سینے میں ہے اور یہ ہر دور میں امت مسلمہ کے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہوتی ہے، کوئی شخص اس کے کسی لفظ یا نقطے یا زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ اگر دنیا سے اس کے تمام نسخے بھی غائب کر دیے جائیں، تو بھی اس کی حفاظت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ جب کہ پہلی تمام کتابوں کا دارومدار لکھے ہوئے نسخوں پر تھا اور پیغمبر یا ایک آدھ شخص کے سوا ان کا کوئی حافظ ہونا ثابت نہیں۔ اس لیے ان میں کمی بیشی اور تحریف و تصحیف ممکن تھی اور واقع بھی ہوئی، جیسا کہ بائبل میں جمع شدہ نوشتے اس کی واضح دلیل ہیں: نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں 2۔ وَ مَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَا اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ: یعنی اتنی واضح نشانیاں دیکھ کر اور ان کے حق ہونے کا علم رکھنے کے بعد ان کا انکار وہی کریں گے جو ظالم ہیں اور قرآن کو ماننے اور حق والے کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔