إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
اور جب فرشتوں نے کہا ۔ اے مریم علیہا السلام ! اللہ تجھے خوشخبری سناتا ہے اپنے ایک حکم کی (ف ٣) جس کا نرم مسیح (علیہ السلام) ہے ، عیسیٰ (علیہ السلام) بیٹا مریم علیہا السلام کا ، دنیا اور آخرت میں مرتبہ والا اور آخرت کے مقربوں میں (ف ٤) سے ۔
1۔ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ....:اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ قرار دیا گیا ہے، اس کی وضاحت آیت(۳۸) کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ فرشتوں نے مریم علیہا السلام سے بالمشافہہ یہ بات کی، جیسا کہ سورۂ مریم (۱۷) میں ہے کہ جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں ان سے ہم کلام ہوئے۔ ’’الْمَسِيْحُ ‘‘ لفظ ’’مَسَحَ ‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہاتھ پھیرنے یا زمین کی مساحت کے ہیں۔ لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح یا تو اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بیماروں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور وہ تندرست ہو جاتے تھے، یا اس بنا پر کہ آپ ہر وقت زمین میں سفر کرتے رہتے تھے۔ ( ابن کثیر) 2۔ یہاں مسیح علیہ السلام کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں:(1) ’’وَجِيْهًا ‘‘ یعنی بہت وجاہت والا ہو گا۔ چہرہ آدمی کی ذات کا آئینہ ہوتا ہے، اس لیے اونچے مرتبے کو وجاہت کہتے ہیں۔ (2) مقرب لوگوں میں سے ہو گا۔ (3) گہوارے اور ادھیڑ عمر میں یکساں حکیمانہ کلام کرے گا۔ گہوارے میں ان کا کلام سورۂ مریم (۳۰ تا ۳۳) میں نقل ہوا ہے اور ادھیڑ عمر میں کلام کرنے میں ان کے دوبارہ اترنے کی طر ف بھی اشارہ ہے۔ (4) صالحین سے ہو گا۔ صالح وہ ہے جس کے سارے کام درست ہوں، اس لیے سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے صالح بندوں میں داخل کیے جانے کی دعا کی۔ دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۱) اور سورۂ نمل (۱۹)۔