وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ
اور تو پہاڑوں کو دیکھ کر خیال کرتا ہے ۔ کہ وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں ۔ حالانکہ وہ بادلوں کی طرح رواں ہوں گے یہ اللہ کی صنعت (کاریگری ) ہے جس نے ہر شے کو استوار کیا جو تم کرتے ہو وہ اس سے خبردار ہے
1۔ وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً ....: یعنی اس وقت صرف انسان ہی نہیں بلکہ وہ پہاڑ جنھیں دیکھ کر تم خیال کرتے ہو کہ اپنی جگہ نہایت مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں، انھیں کوئی چیز ہلا نہیں سکتی، وہ قیامت کے دن بادل کی طرح فضا میں اڑتے پھریں گے۔ قیامت کے دن پہاڑوں کے مختلف احوال مذکور ہیں، سب کا حاصل یہ ہے کہ ان کو اڑا کر زمین صاف کر دی جائے گی۔ دیکھیے سورۂ طٰہٰ(۱۰۵)، معارج (۹)، حاقہ (۱۴)، مزمل (۱۴)، قارعہ (۵)، فرقان (۲۳) اور واقعہ (۶) اور ان پر گزرنے والی کیفیات کی ترتیب کے لیے سورۂ نبا کی آیت (۲۰) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ....: اتقان کا معنی کسی چیز کو پوری مہارت کے ساتھ مضبوط بنانا ہے، یعنی پہاڑوں کو بادل کی طرح اڑا دینا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے صرف پہاڑ ہی نہیں، بلکہ ہر چیز کو مضبوط اور محکم بنایا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے اور اس بات کی بھی کہ وہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے، حتیٰ کہ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ کیونکہ اتقان قدرت کے بغیر ممکن نہیں اور قدرت علم کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے اس علم و قدرت ہی سے قیامت قائم ہو گی اور اسی سے لوگوں کو ان کے افعال کی جزا یا سزا ملے گی، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔