لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
چاہئے کہ مسلمان مسلمانوں کے سوا کافروں کو دوست (ف ١) نہ بنائیں اور جو (مسلمان) ایسا کرے گا تو اسے خدا سے کوئی تعلق نہیں البتہ اگر تم ان سے بچاؤ کرکے بچنا چاہو (تو مضائقہ نہیں) اور اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی طرف لوٹنا ہے ۔
1۔ لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ....: جب اکیلا اللہ تعالیٰ ہی بادشاہی کا مالک، عزت و ذلت دینے والا اور ہر خیر والا ہے تو ایمان والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اس کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھیں، کسی فائدے کی امید پر اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی نہ رکھیں اور جو شخص ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کی دوستی میں سے ذرہ برابر حصہ بھی نہیں ہو گا۔ ہاں، ان کے شر سے کسی طرح بچنے کے لیے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار جائز ہے، جب کہ دل میں ان کے کفر کی وجہ سے نفرت ہو۔ اسی طرح جو کافر مسلمانوں کے خلاف نہ لڑتے ہوں اور نہ کسی لڑنے والے کی مدد کرتے ہوں تو ان سے حسن سلوک اور مدارات جائز ہے۔ دیکھیے سورۂ ممتحنہ ( ۸، ۹)۔ 2۔ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً:لفظ ”تُقٰىةً“ ’’وَقٰي يَقِيْ‘‘ سے مصدر ہے، تنوین کی وجہ سے ’’کسی طرح بچنا‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ ’’تقیہ‘‘ بھی اس کا ہم معنی ہے۔ طبری اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا ہے کہ وہ کافروں سے دلی دوستی رکھیں، الا یہ کہ کافر ان پر غالب ہوں تو ان کے لیے نرمی کا اظہار کریں، مگر دین میں ان کی مخالفت کریں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۵۱، ۵۶) اور تقیہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نحل (۱۰۶)۔ ان آیات سے کسی مسلمان کے لیے مسلمانوں کے ملک کو چھوڑ کر کفار کے ملک میں رہنے کی کراہت بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ وہاں مسلمان کے لیے کفار سے دوستی کے عملی ثبوت کے بغیر رہنا اور اپنے اور اہل و عیال کے دین کو بچانا مشکل ہے، اس لیے اگر کوئی مسلمان کہیں مغلوب ہے تو اسے جان بچانے کے لیے دوستی کا اظہار تو جائز ہے، مگر وہاں سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے علاقے میں آنا لازم ہے۔ ہاں، بے بس ہو تو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ اور اس مفہوم کی دوسری آیات مسلم حکومتوں کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتی ہیں اور انفرادی معاملات میں مدارات کی بھی، جیسا کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ہم بعض لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں، جب کہ ہمارے دل ان پر لعنت کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ [بخاری، الأدب، باب المداراۃ مع الناس....، قبل ح:۶۱۳۱]