تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
تو ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو ہی مردہ میں سے زندہ اور زندہ میں سے مردہ نکالتا ہے ، اور جسے چاہے ‘ بےحساب روزی دیتا ہے ،
1۔ تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ:اس سے موسموں کے اعتبار سے رات اور دن کے بڑھنے اور گھٹنے کی طرف اشارہ ہے، ایک ہی وقت کبھی رات کا حصہ بن جاتا ہے اور کبھی دن کا۔ اس طرح رات دن میں داخل ہو جاتی ہے اور دن رات میں۔ 2۔ وَ تُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ....: مردہ سے زندہ، یعنی کافر سے مسلمان، جیسے آزر سے ابراہیم علیہ السلام ، نطفہ سے حیوان، انڈے سے پرندہ اور زندہ سے مردہ جیسے نوح علیہ السلام سے کنعان اور حیوان اور پرندے سے نطفہ اور انڈا۔ 3۔ طبرانی کی ایک روایت میں اس آیت کے اندر اسم اعظم ہونے کا ذکر ہے۔ ’’هداية المستنير‘‘ میں اس روایت کو ایک راوی محمد بن زکریا غلابی کی وجہ سے موضوع کہا گیا ہے اور ’’الضعیفہ (۲۷۷۲)‘‘ سے ’’ضَعِيْفٌ جِدًّا‘‘ کا حکم نقل کیا گیا ہے۔