قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
بولا مجھ کو اس کے معلوم کرنے سے کیا غرض جو وہ ہمیشہ کرتے رہے ہیں
قَالَ وَ مَا عِلْمِيْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ....: یعنی مجھے تو اللہ کا راستہ بتانے سے غرض ہے نہ کہ ان کے پیشوں سے۔ وہ کمائی کے لیے جو بھی کام کریں یا جو بھی پیشہ اختیار کریں، اگر وہ جائز ہے تو وہ اپنے ایمان دار ہونے کی وجہ سے ان مغرور مال داروں سے افضل ہیں جو اللہ کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں، مجھے تو ظاہری ایمان کو دیکھنا ہے، ان کی نیتوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے، وہی ان کا حساب کرے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی يَشْهَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ، وَ يُقِيْمُوا الصَّلَاةَ، وَ يُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَاءَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَ حِسَابُهُمْ عَلَی اللّٰهِ )) [ بخاري، الإیمان، باب فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ : ۲۵ ] ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اگر وہ یہ کام کریں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کر لیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘