قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ
وہ بولے کیا ہم تجھے بتائیں حالانکہ کمینے لوگ تیرے تابع ہیں
قَالُوْا اَنُؤْمِنُ لَكَ....: ’’ الْاَرْذَلُوْنَ ‘‘ ’’أَرْذَلُ‘‘ (اسم تفضیل) کی جمع سالم ہے، سب سے کمتر، نیچ، ذلیل، جن کے پاس جاہ و مال نہ ہو، غریب، محتاج۔ ان میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بات کہنے والے نوح علیہ السلام کی قوم کے سردار تھے۔ دیکھیے سورۂ ہود (۲۷) اس سے معلوم ہوا کہ نوح علیہ السلام پر ایمان لانے والے زیادہ تر غریب لوگ، چھوٹے چھوٹے پیشہ ور یا ایسے نوجوان تھے جن کی قوم میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے بھی ایسے ہی لوگ تھے۔ حدیثِ ہرقل میں ہے کہ اس نے ابوسفیان سے سوال کیا : (( فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُوْنَهُ أَمْ ضُعَفَائُهُمْ ؟ )) ’’اونچے لوگ اس کی پیروی اختیار کر رہے ہیں یا کمزور لوگ؟‘‘ ابوسفیان نے جواب دیا : ’’کمزور لوگ۔‘‘ تو ہرقل نے کہا : ’’رسولوں کی پیروی کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں۔‘‘ [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي....: ۷ ] کیونکہ مال و جاہ والے لوگوں کو ایمان قبول کرنے میں ان کا مال و جاہ، اپنی عزت اور رتبے کا احساس اور دنیوی مفاد رکاوٹ بن جاتے ہیں، کیونکہ ایمان لانے کی صورت میں انھیں حکم منوانے کے بجائے حکم ماننا پڑتا ہے، جب کہ کمزور لوگ ان رکاوٹوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ اس مکالمے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی تسلی ہے، کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ بھی اللہ کے فضل کا مستحق مال داروں ہی کو سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے مکہ یا طائف کے کسی مال دار سردار کو نبوت ملنی چاہیے تھی، سورۂ زخرف میں ہے : ﴿ وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ [الزخرف:۳۱] ’’اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟‘‘ واضح رہے کہ مومن کو رذیل یا ذلیل سمجھنا یا کہنا جائز نہیں، بلکہ ہر مومن کے متعلق یہی خیال رکھنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے یہ مجھ سے بہتر ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ ﴾ [ الحجرات : ۱۱ ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘