سورة الشعراء - آیت 109

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور میں اس (پیغام) سے کچھ اجرت نہیں مانگتا ۔ میری اجرت صرف جہانوں کے رب پر ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ: اپنی رسالت کے ثبوت کے لیے دوسری چیز یہ پیش فرمائی کہ دین داری اور روحانیت کے دعوے داروں کا مقصود عموماً اپنی گدی جمانا، مال و زر جمع کرنا اور سرداری حاصل کرنا ہوتا ہے۔ خانقاہوں اور راہبوں کی کٹیاؤں کے تقدس کے پیچھے عموماً بدترین ہوس زر ہی چھپی ہوتی ہے، مگر مجھے اللہ کا پیغام پہنچانے میں نہ تم سے کسی مزدوری یا دنیاوی منفعت کی خواہش ہے نہ تم سے اس کا کوئی مطالبہ۔ ایسے بے غرض خیر خواہ کی بھی بات نہ مانو تو تم سے بڑا بدنصیب کون ہو گا۔ اس بات کا نوح علیہ السلام نے خاص طور پر اس لیے بھی ذکر کیا کہ ان کی قوم نے ان پر بہتان باندھا تھا کہ وہ رسالت کے ذریعے سے اپنی قوم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، سورۂ مؤمنون میں ہے : ﴿ مَا هٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ﴾ [ المؤمنون : ۲۴ ] ’’یہ نہیں ہے مگر تمھارے جیسا ایک بشر، جو چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کر لے۔‘‘ نوح علیہ السلام کی طرح ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی بھی اس کی شاہد عدل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پیچھے نہ کوئی دینار چھوڑا، نہ درہم اور نہ کوئی اور چیز، جو کچھ تھا صدقہ کر دیا۔ اللہ کے پیغمبر ایسے ہی بے لوث ہوتے ہیں اور وہ اس کا اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: اس میں قیامت کے عقیدے کی دعوت بھی ہے کہ میری تگ و دو اور محنت کی اجرت صرف اور صرف رب العالمین کے ذمے ہے اور ظاہر ہے کہ وہ قیامت کے دن ہی پوری پوری ملے گی۔