قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
موسیٰ نے کہا ۔ مشرق اور مغرب اور جو ان کے درمیان میں ہے اس رب اگر تم عقل رکھتے ہو
1۔ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ....: شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ’’موسیٰ علیہ السلام ایک بات کہے جاتے تھے اللہ کی قدرتیں بتانے کو اور فرعون بیچ میں اپنے سرداروں کو ابھارتا تھا کہ ان کو یقین نہ آ جائے۔‘‘ پاگل ہونے کے الزام کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے اب وہ دلیل پیش کی جو ان کے جدّ امجد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے پیش کی تھی کہ ’’رب العالمين‘‘ وہ ہے جو مشرق و مغرب اور ان کے مابین کا رب ہے، جو ہمیشہ سے سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے، تمھیں رب ہونے کا زعم ہے تو ذرا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا دو۔ 2۔ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ: مجھے دیوانہ بتاتے ہو اور خود عقل مند ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، اگر تم میں واقعی عقل ہے تو بتاؤ کہ رب وہ ہے جس کے حکم سے سورج ہمیشہ مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا ہے، یا تم جو ایک دفعہ بھی ایسا نہیں کر سکتے۔پہلی دفعہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق نرم لفظ استعمال فرمائے، یعنی ’’ اِنْ كُنْتُمْ مُوْقِنِیْنَ‘‘ لیکن جب اس نے مجنون ہونے کا الزام لگایا تو موسیٰ علیہ السلام نے سخت الفاظ استعمال فرمائے ’’ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ‘‘ کہ اگر تم سمجھتے ہو۔ (ابن جَزیّ)