قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ
بولا کیا ہم نے تجھے تیرے لڑکپن کے زمانہ میں اپنے گھر میں نہیں پالا تھا ؟ اور تو ہم میں اپنی عمر کے کتنے برسوں تک رہا
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا....: یہاں لمبی بات سننے والے کی سمجھ پر چھوڑ کر حذف کر دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی ہیبت عطا فرمائی کہ وہ دونوں کسی فوج یا اسلحے کے بغیر فرعون کے دربار میں پہنچے، اس کی فوج اور پہرے داروں میں سے کسی کو انھیں روکنے کی جرأت نہ ہو سکی اور دربار میں پہنچ کر انھوں نے اس کے تمام سرداروں کی موجودگی میں اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ اصل رسول وہی ہیں، ہارون صرف معاون ہیں، اس لیے اس نے موسیٰ علیہ السلام ہی کو مخاطب کیا، ہارون علیہ السلام سے بات نہیں کی۔ موسیٰ علیہ السلام سے بات کرتے ہوئے اس نے ان کی دعوت پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے حکمرانوں کے عام ہتھکنڈے استعمال کیے، جن میں سے پہلا ہتھکنڈا ان کی پرورش کا احسان جتا کر شرمندہ کرنا تھا۔ چنانچہ کہنے لگا کہ کیا ہم نے تجھے اپنے پاس رکھ کر تیری اس وقت پرورش نہیں کی جب تو بچہ تھا اور تو اپنی عمر کے کئی برس ہم میں رہا۔ دوسرا ہتھکنڈا انھیں مجرم ثابت کرکے سزا سے خوف زدہ کرنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پرورش کے احسان سے شرمندہ ہو کر یا جان کے خوف سے وہ زبان بند رکھیں گے۔ چنانچہ کہنے لگا : ’’اور تو نے اپنا وہ کام کیا جو تو نے کیا اور تو ناشکروں میں سے ہے‘‘ یعنی ہمارے اتنے احسانات کے باوجود تم نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کر دیا جو یقیناً تمھاری احسان فراموشی تھی۔ ’’ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا ‘‘ (کیا ہم نے تیری اپنے ہاں پرورش نہیں کی) کے الفاظ سے ان مفسرین اور مؤرخین کی بات کی کسی قدر تائید ہوتی ہے جن کا خیال ہے کہ یہ فرعون وہ نہیں تھا جس کے گھر موسیٰ علیہ السلام کی پرورش ہوئی تھی، بلکہ اس کا بیٹا تھا، کیونکہ اگر یہ وہی ہوتا تو کہتا، کیا میں نے تیری پرورش نہیں کی اور تو کئی سال میرے پاس رہا؟ (واللہ اعلم)