يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے لوگو اپنے رب کی جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا ‘ بندگی کرو ، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ (بچ جاؤ )
1۔ اس سے پہلی آیت تک تو تمہید تھی کہ قرآن جو ہدایت کا اصلی سر چشمہ ہے اسے ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے لوگ تین قسم کے ہیں ، اب آگے براہِ راست خطاب کے ساتھ تمام لوگوں کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جا رہی ہے جو اس کتاب کی دعوت کا حقیقی مقصد ہے، جس کے لیے کتابیں اتاری گئیں اور انبیاء بھیجے گئے وہ ہے دعوتِ توحید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ 2۔طبری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ”اعْبُدُوْا“ کا معنی بیان کیا ہے : ’’ اَيْ وَحِّدُوْا رَبَّكُمْ ‘‘ یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔ 3۔ توحید کے لیے پہلی دلیل یہ بیان فرمائی کہ میں تمھارا رب ہوں جو تمھاری پرورش کر رہا ہے اور تمھاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔ دوسری دلیل اس کی وہ نعمت ہے جو رب ہونے سے بھی پہلے کی ہے اور وہ ہے تمھیں پیدا کرنا۔ باقی تمام نعمتیں اس کے بعد ہیں ، اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ، قرآن مجید اس دلیل پر بہت زور دیتا ہے اور اسے بار بار دہراتا ہے۔ اس لیے کہ کفار بھی مانتے تھے کہ خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، فرمایا : ﴿ وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ﴾ [ الزخرف : ۸۷ ]’’ اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘ 4۔ ”لَعَلَّ“ یہاں ’’ كَيْ‘‘ یعنی ’’تاکہ‘‘ کے معنی میں ہے۔ 5۔ تَتَّقُوْنَ: بچ جاؤیعنی اللہ کی گرفت سے اور جہنم سے بچ جاؤ۔