سورة النور - آیت 53

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تو ان کو حکم دے تو وہ ضرور اپنا وطن چھوڑ کر نکل جائیں تو کہہ قسمیں نہ کھاؤ (ہم کو) فرمانبرداری چاہئے کہ دستور ہے ، البتہ اللہ واقف ہے جو تم کرتے ہو ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ....: ’’ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ‘‘ کی دو ترکیبیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ یہ فعل محذوف کا مصدر ہے، جو اس فعل کی تاکید کر رہا ہے : ’’أَيْ أَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ يَجْهَدُوْنَ أَيْمَانَهُمْ جَهْدًا‘‘ اور ’’ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی قسم کھانے کی زیادہ سے زیادہ جو طاقت رکھتے تھے اس کے ساتھ انھوں نے قسم کھائی۔ یہ ’’جَھَدَ نَفْسَہُ ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے اس نے اپنی جان کی آخری طاقت لگا دی۔ دوسری ترکیب یہ ہے کہ یہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے : ’’أَيْ أَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ مُجْتَهِدِيْنَ فِيْ أَيْمَانِهِمْ‘‘ یعنی انھوں نے قسموں میں اپنی پوری کوشش لگاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی۔ (شوکانی) یعنی منافقین کو اپنے طرز عمل کی وجہ سے احساس تھا کہ مسلمان ہماری بات کا اعتبار نہیں کرتے تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سے زیادہ پکی قسمیں کھا کر کہا کہ اگر آپ ہمیں ہمارے گھروں اور اہل و عیال سے نکلنے کا حکم دیں تو ہم ان سے نکل جائیں گے اور اگر جہاد کا حکم دیں تو ہم ہر صورت آپ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلیں گے، غرض جو کہیں گے اس پر عمل کریں گے۔ درحقیقت ان کا قسم کھانا ہی اس بات کی چغلی کر رہا تھا کہ ان کی بات کا اعتبار نہیں، جیسا کہ متنبی نے کہا ہے: وَ فِيْ يَمِيْنِكَ فِيْمَا أَنْتَ وَاعِدُهُ مَا دَلَّ أَنَّكَ فِي الْمِيْعَادِ مُتَّهَمُ ’’اور تو جس بات کا وعدہ کر رہا ہے اس پر تیرے قسم کھانے میں اس بات کی دلیل ہے کہ تو اپنے وعدے میں قابل اعتبار نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دے کہ قسمیں مت کھاؤ۔ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ: ’’أَيْ الْمَطْلُوْبُ مِنْكُمْ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ‘‘ یعنی مطلوب تم سے قسمیں لینا نہیں بلکہ مطلوب جانے پہچانے طریقے کے مطابق فرماں برداری ہے اور یہی کافی ہے، قسموں کی ضرورت نہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے : ’’طَاعَتُكُمْ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ‘‘ کہ قسمیں مت کھاؤ، تمھاری اطاعت جانی پہچانی اور تمھارا جھوٹ مشہور و معروف ہے، سب جانتے ہیں کہ تم کیسی اطاعت کرتے ہو۔ قسمیں کھانے سے تم مطیع نہیں بن جاؤ گے، تم جو کچھ کر رہے ہو یا کرو گے، جتنا چاہو چھپانے کی کوشش کرو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس دوسری تفسیر کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے: ﴿يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ﴾ [التوبۃ : ۹۶ ] ’’تمھارے لیے قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہو جاؤ تو بے شک اللہ نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔‘‘