لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ
جب تم نے اس کو سنا تھا ، تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہ کیا ، اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے ؟
1۔ لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا : بظاہر یوں کہنا چاہیے تھا کہ ’’کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو تم نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا‘‘ اس کے بجائے فرمایا : ’’کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت کو سچا سمجھنے والے مرد اور عورتیں دونوں تھے، اس لیے دونوں کو متنبہ کرنے کے لیے خاص طور پر ان کے مومن ہونے کا ذکر فرمایا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی تہمت کی وجہ سے کسی مومن کے متعلق اپنے دل میں برا گمان نہ آنے دیا جائے۔ 2۔ اس آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر اپنے دلوں میں (عائشہ رضی اللہ عنھا کے متعلق) اچھا گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ صریح بہتان ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں اچھا گمان کرتے۔ یعنی تم اپنے متعلق سوچتے کہ اگر تم اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ اکیلے ہوتے تو کبھی یہ حرکت کرتے۔ تو تم نے یہ کیسے گمان کر لیا کہ صفوان( رضی اللہ عنہ ) اپنی اور تمام مومنوں کی ماں کے ساتھ ایسا خیال بھی کرے گا، بلکہ کیا تمھارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی قافلے سے بچھڑی ہوئی کوئی خاتون مل جائے تو اس کے ساتھ ایسی خسیس حرکت کرو۔ یہ وہی شخص سوچ سکتا ہے جس میں ایمان نہ ہو اور انتہائی گندے ذہن کا مالک ہو، وہ دوسرے کو بھی ایسا ہی گندا سمجھے گا جیسا خود گندا ہے۔ پاک باز شخص دوسرے کے متعلق بھی پاک بازی ہی کا گمان کرے گا۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ ’’ بِاَنْفُسِهِمْ ‘‘ سے مراد دوسرے مومن ہیں، کیونکہ تمام مومن ایک جان کی مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَكُمْ﴾ [النساء: ۲۹ ] ’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَسَلِّمُوْا عَلٰى اَنْفُسِكُمْ﴾ [النور : ۶۱ ] ’’اپنے آپ کو سلام کہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ لَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَكُمْ﴾ [الحجرات : ۱۱ ] ’’اور اپنے آپ پر عیب نہ لگاؤ۔‘‘ مراد کسی دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو سلام کہنا اور کسی دوسرے پر عیب لگانا ہے۔ یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں یعنی دوسرے مومنوں کے بارے میں اچھا گمان کرتے، کیونکہ وہ اور دوسرے مومن ایک ہی ہیں۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تَرَی الْمُؤْمِنِيْنَ فِيْ تَرَاحُمِهِمْ وَ تَوَادِّهِمْ وَ تَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكٰی عُضْوًا تَدَاعٰی لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰی)) [بخاري، الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم : ۶۰۱۱ ] ’’تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم، ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور ایک دوسرے پر شفقت کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہو تو اس کی خاطر سارا جسم بخار اور بیداری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ 3۔ وَ قَالُوْا هٰذَااِفْكٌ مُّبِيْنٌ : صاف جھوٹ اور صریح بہتان اس لیے کہ جو کچھ ہوا اس میں شک کی گنجائش ہی نہ تھی، ام المومنین رضی اللہ عنھا دن کے وقت عین دوپہر کی روشنی میں صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کی سواری پر آ رہی ہیں۔ صفوان مہار پکڑے ہوئے ہیں، پورا لشکر آپ کو دیکھ رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس موجود ہیں۔ اگر (بالفرض) شک والی کوئی بات ہوتی تو وہ چھپ چھپا کر آتے، اکٹھے آنے کی جرأت نہ کرتے اور دن کے بجائے رات کو آتے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائی رات کو آئے تھے، فرمایا: ﴿وَ جَآءُوْ اَبَاهُمْ عِشَآءً يَّبْكُوْنَ﴾ [یوسف : ۱۶ ] ’’اور وہ اپنے باپ کے پاس اندھیرا پڑے روتے ہوئے آئے۔‘‘ اس لیے یہ بات واضح تھی کہ ام المومنین رضی اللہ عنھا پر جو الزام لگایا گیا صاف جھوٹ اور صریح بہتان ہے اور ایمان والے ہر مرد اور عورت کو یہی کہنا لازم ہے۔