وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں ، اور ان کے پاس خود اپنی جانوں کے اور گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی کی گواہی ہے کہ اللہ کی قسم کھا کر چار دفعہ گواہی دے ، کہ مقرر وہ سچوں میں ہے ۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ....: حد قذف کی آیات نازل ہونے کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو زنا کرتے ہوئے دیکھے اور اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو وہ کیا کرے۔ سب سے پہلے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرضی طور پر اس کے متعلق پوچھا، کہنے لگے: ((يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِيْ رَجُلاً، أَ أُمْهِلُهُ حَتّٰی آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ نَعَمْ )) [ مسلم، کتاب اللعان :15؍1498] ’’یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو پاؤں تو کیا اسے چار گواہ لانے تک مہلت دوں؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’ہاں!‘‘ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے پوچھا : ’’اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے تو وہ یا تو بات کرے گا تو تم اسے کوڑے مارو گے، یا وہ (اسے) قتل کر دے گا، تو تم اسے قتل کر دو گے، یا خاموش رہے گا تو دلی غیظ پر خاموش رہے گا۔‘‘ آپ نے کہا: ((اللّٰهُمَّ ! افْتَحْ )) ’’یا اللہ! تو فیصلہ فرما!‘‘ اور دعا کرنے لگے، تو لعان کی آیات اتریں: ﴿وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّا اَنْفُسُهُمْ … اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ﴾ [ النور : ۶ تا ۹ ] تو وہی آدمی اس آزمائش میں مبتلا ہو گیا۔ چنانچہ وہ اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے لعان کیا۔ مرد نے اللہ کی چار قسمیں کھائیں کہ وہ یقیناً سچوں میں سے ہے، پھر پانچویں دفعہ اس نے لعنت کی کہ اس پر لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ پھر وہ عورت لعنت کرنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ٹھہرو!‘‘ مگر وہ نہیں مانی اور اس نے لعان کر دیا۔ جب وہ واپس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’شاید کہ وہ سیاہ گھونگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دے۔‘‘ تو اس نے سیاہ گھونگھریالے بالوں والے بچے ہی کو جنم دیا۔ [ مسلم، کتاب اللعان : ۱۴۹۵ ] سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! یہ بتائیں کہ کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے تو کیا اسے قتل کر دے، تو تم اسے قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بارے میں قرآن کی وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کا ذکر ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے تمھارے اور تمھاری بیوی کے متعلق فیصلہ فرما دیا ہے۔‘‘ سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ان دونوں نے لعان کیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا اور اس نے بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی تو یہ سنت ٹھہری کہ لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کر دی جائے گی اور وہ حاملہ تھی تو خاوند نے اس کے حمل کو اپنا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے وہ ماں کے نام پر پکارا جاتا تھا، پھر میراث میں یہ سنت جاری ہوئی کہ وہ لڑکا اپنی ماں کا وارث بنے گا اور وہ اس کی وارث ہو گی۔‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿والخامسۃ أن لعنت اللہ علیہ ....﴾ : ۴۷۴۶ ] 2۔ ان دونوں احادیث میں لعان کے تقریباً سبھی احکام آ گئے ہیں۔ میاں بیوی دونوں میں سے ایک کے یقیناً جھوٹا ہونے کے باوجود ان کا معاملہ لعان کے بعد اللہ کے سپرد کیا جائے گا، تاکہ مہلت اور پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر غلطی والا فریق اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرلے۔ 3۔ یاد رہے کہ کسی خاوند کا محض شک کی بنا پر یا بچے کے حلیہ کو اپنے مطابق نہ دیکھ کر بیوی پر زنا کا الزام لگا دینا سخت گناہ ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! میرے ہاں کالے رنگ کا بچہ پیدا ہوا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے کہا : ’’جی ہاں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے رنگ کیا ہیں؟‘‘ کہا : ’’سرخ ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے؟‘‘ کہا : ’’جی ہاں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ کیسے ہو گیا؟‘‘ کہا : ’’شاید اسے کوئی رگ کھینچ کرلے گئی ہو۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو شاید تمھارے اس بیٹے کو بھی کوئی رگ کھینچ کر لے گئی ہو۔‘‘ [ بخاری، الطلاق، باب إذا عرض بنفي الولد : ۵۳۰۵ ]