إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
مگر جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور درست ہوگئے ، تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے (ف ١) ۔
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا....: اس بات پر اتفاق ہے کہ توبہ سے بہتان کی حد معاف نہیں ہو گی، اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ توبہ اور اصلاح کے بعد اس سے فسق کا حکم اٹھ جائے گا، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ توبہ اور اصلاح کے بعد اس کی شہادت قبول ہو گی یا نہیں۔ طبری رحمہ اللہ نے حسن سند کے ساتھ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ذکر کیا ہے کہ انھوں نے ’’ وَ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ‘‘ پڑھا اور فرمایا : ’’پھر جو شخص توبہ اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔‘‘ اگرچہ بعض لوگوں کے مطابق توبہ اور اصلاح کے بعد بھی اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی، مگر صحیح بات یہی ہے کہ اگر بہتان لگانے والا توبہ کرے کہ آئندہ میں ایسی بات نہیں کروں گا اور واقعی اپنی اصلاح کر لے اور ایسی کوئی غلطی نہ کرے تو اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔ کیونکہ مردود الشہادہ تو وہ فسق کی وجہ سے تھا، جب فسق نہ رہا تو شہادت کیوں قبول نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ کہ توبہ سے تو کفر و شرک بھی معاف ہو جاتا ہے، قذف تو اس سے کہیں کم گناہ ہے۔ رہا لفظ ’’ اَبَدًا ‘‘ (ہمیشہ) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ تہمت لگانے سے باز نہ آئے، خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے، اس کی شہادت مت قبول کرو۔ رہی وہ مدت جس سے اس کی توبہ اور اصلاح ثابت ہو جاتی ہے تو بعض لوگوں نے اس کے لیے ایک سال مدت مقرر کی ہے، مگر یہ بات کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اس لیے یہ بات قاضی پر چھوڑ دی جائے گی، اگر اسے کسی بھی مدت میں اس کی توبہ اور اصلاح کا یقین ہو جائے تو وہ اس کی شہادت قبول کر سکتا ہے، کیونکہ یقیناً اللہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی، وہ توبہ کے بعد بے حد پردہ پوشی بھی کرتا ہے اور رحم بھی۔