سورة المؤمنون - آیت 93

قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اے رب اگر تو مجھے وہ عذاب دکھلائے جس کا ان سے عقد کیا جاتا ہے ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ: ’’ اِمَّا ‘‘ ’’إِنْ‘‘ کی تاکید ’’مَا‘‘ کے ساتھ کی گئی ہے، اس لیے ترجمہ ’’اگر کبھی‘‘ کیا گیا ہے اور ’’تُرِيَنَّ‘‘ میں نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے۔ مفسر بقاعی نے لکھا ہے : ’’أَيْ إِنْ كَانَ وَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ تُرِيَنِّيْ قَبْلَ مَوْتِيْ‘‘ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ’’اگر تو کبھی مجھے ضرور ہی وہ (عذاب) دکھائے۔‘‘ 2۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی جناب میں اولاد یا شریک بنانے کی سخت گستاخی کی جاتی ہے تو یقیناً کوئی سخت آفت آ کر رہے گی، اس لیے ہر مومن کو حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر یہ دعا مانگے۔ 3۔ آیت کے اولین مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ان کے ساتھ امت کا ہر فرد بھی مخاطب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں عذاب نہ لانے کا وعدہ فرمایا ہے، فرمایا : ﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ [ الأنفال : ۳۳ ] ’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے، جب کہ تو ان میں ہو اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔‘‘ اس کے باوجود اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب سے بچنے کی دعا کا حکم دیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے عذاب سے سخت خوف زدہ رہتے تھے اور اس سے بچنے کی دعا کرتے رہتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے، اس کے باوجود آپ کو استغفار کا حکم دیا، فرمایا : ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ﴾ [ النصر : ۳ ] ’’تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ سے خشیت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل یا آندھی دیکھتے تو آپ کے چہرے پر اس کے اثرات پہچانے جاتے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا : ’’یا رسول اللہ! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اس امید پر کہ اس میں بارش ہو گی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ اسے دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نظر آتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا عَائِشَةُ! مَا يُؤْمِنِّيْ أَنْ يَّكُوْنَ فِيْهِ عَذَابٌ؟ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيْحِ وَقَدْ رَأَی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا )) [بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ فلما رأوہ عارضا...﴾ : ۴۸۲۹ ] ’’اے عائشہ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں کوئی عذاب نہ ہو؟ ایک قوم (عاد) پر آندھی کا عذاب آیا اور ایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگے، یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔‘‘ 4۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی کو ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ پروردگارا! تو مجھے عفو اور عافیت عطا فرما اور اگر تو نے کچھ لوگوں کو عذاب دینے کا ارادہ کر ہی لیا ہو تو مجھے ان ظالموں میں شامل نہ کرنا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا نقل فرمائی ہے : (( اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَ تَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاكِيْنِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لِيْ وَ تَرْحَمَنِيْ وَ إِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِيْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِيْ غَيْرَ مَفْتُوْنٍ، وَ أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَ حُبَّ مَنْ يُّحِبُّكَ وَ حُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّكَ )) ’’اے اللہ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے، برائیاں چھوڑنے اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس بات کا بھی کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور جب تو کسی قوم کے فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں ڈالے بغیر قبض کر لے۔ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت کا جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب کر دے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوْهَا ثُمَّ تَعَلَّمُوْهَا )) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ صٓ : ۳۲۳۵، قال الترمذي حسن صحیح و قال الألباني صحیح ] ’’یہ کلمات حق ہیں انھیں پڑھو، پھر انھیں اچھی طرح سیکھ لو۔‘‘ 5۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا سکھائی تاکہ مشرکین پر عذاب آئے تو آپ اس وقت ان کے ساتھ نہ ہوں، بلکہ ان سے الگ ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی توفیق عطا فرما کر آپ کو کافروں سے الگ کر دیا اور قحط اور جنگوں کی صورت میں ان پر جو عذاب آئے آپ کو ان سے محفوظ رکھا۔