قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
تو پوچھ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر شے کی حکومت ہے ، اور وہ بچا لیتا ہے ، اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا اگر جانتے ہو تو بتاؤ ؟ (ف ١) ۔
1۔ قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ : ’’مُلْكٌ‘‘ اور ’’مِلْكٌ‘‘ دونوں کے مفہوم میں مبالغہ پیدا کرنے کے لیے لفظ ’’مَلَكُوْتُ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے، یعنی ایسی کامل ملکیت اور کامل بادشاہی جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ ’’ بِيَدِهٖ ‘‘ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’کہہ کون ہے وہ کہ صرف اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل بادشاہی ہے۔‘‘ 2۔ وَ هُوَ يُجِيْرُ وَ لَا يُجَارُ عَلَيْهِ: ’’ أَجَارَ يُجِيْرُ ‘‘ (افعال) پناہ دینا، کسی کو ہر ایک سے بچا کر اپنی حفاظت میں لے لینا۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’عرب کا دستور تھا کہ ان کا سردار کسی کو پناہ دے دیتا تو اس کی پناہ کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی تھی اور کسی کو اس کے مقابلے میں پناہ دینے کا اختیار نہیں ہوتا تھا۔‘‘ 3۔ جب ان سے نیچے اور اوپر کے دونوں جہانوں کے مالک ہونے کا اقرار کروا لیا تو حکم دیا گیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے ہر چیز کے رب ہونے کا اعتراف کر واؤ، تاکہ اس میں وہ چیزیں آ جائیں جن کا ذکر ہوا ہے اور وہ بھی جن کا ذکر نہیں ہوا۔ چنانچہ فرمایا، کہہ دے وہ کون ہے کہ صرف اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل ملکیت اور کامل بادشاہی ہے اور وہ پناہ دیتا ہے (یعنی جسے وہ پناہ دے دے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا) اور اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دی جاتی (یعنی جسے وہ پکڑ لے اسے کوئی اپنی پناہ میں نہیں لے سکتا، نہ اس سے چھڑا سکتا ہے)۔