سورة المؤمنون - آیت 78

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس نے تمہارے لئے کان ، اور آنکھیں ‘ اور دل پیدا کئے تم بہت کم شکر گزار ہو (ف ١) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ هُوَ الَّذِيْ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ....: اس سے پہلے کفار کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، اب انھیں مخاطب کرکے احسانات یاد دلائے۔ یہ غائب سے مخاطب کی طرف التفات ہے، کیونکہ بعض اوقات وعید کا اثر نہیں ہوتا، ہاں! کسی احسان کی خوشگوار یاد دل کو مائل کر دیتی ہے۔ وَ هُوَ الَّذِيْ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ....: یعنی وہ لوگ نہ اپنے رب کے لیے جھکے اور نہ عاجزی اختیار کی، حالانکہ رب صرف وہ ہے، کوئی اور نہیں۔ جس نے کسی پہلے نمونے کے بغیر تمھارے لیے کان، آنکھیں اور دل پیدا فرمائے، جو سننے، دیکھنے اور سمجھنے کے مرکز ہیں۔ ان تینوں چیزوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جسم کی تمام نعمتیں ان کے تابع ہیں، یہ نہ ہوں تو کچھ بھی نہیں۔ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ : یہ بات کہ تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو، کئی طرح سمجھی جا سکتی ہے۔ مثلاً سوچو، کوئی آدمی اگر تمھیں یہ تینوں نعمتیں دے اور تم اس کا بدلا دینا چاہو تو کیا دے سکتے ہو؟ یا اس طرح سوچو کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ تینوں نعمتیں تم سے چھین لے تو تمھارا کیا حال ہو گا؟ اب جو اس نے یہ سب کچھ تمھیں دے رکھا ہے تو ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے تم اس کی کس قدر فرماں برداری کر رہے ہو؟ اس سے بڑی ناشکری کیا ہو ـگی کہ اپنا خالق و مالک مانتے ہوئے اس اکیلے کی عبادت کے بجائے تم نے اس کے شریک بنا رکھے ہیں، جنھوں نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بجائے تم اسے جھٹلا رہے ہو؟ ان حواس کی شکر گزاری تو یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے صحیح راستے کی طرف رہنمائی حاصل کرو، ورنہ ان کے ذریعے سے جسمانی اور مادی خواہش تو دوسرے حیوانات بھی پوری کر رہے ہیں۔ تمھارا حق یہ ہے کہ کائنات میں توحید کے جو دلائل پائے جاتے ہیں ان حواس کے ذریعے سے ان دلائل کو آنکھوں سے دیکھو، کانوں سے سنو اور دل سے سمجھو اور توحیدِ الٰہی پر دل و جان سے ایمان رکھو۔ 4۔ ’’ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ‘‘ کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم شکر کرتے ہی نہیں، کیونکہ عرب ’’قَلِيْلٌ‘‘ کو نہ ہونے کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ ابوکبیر ہذلی نے ’’تَأَبَّطَ شَرًّا‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: قَلِيْلُ التَّشَكِّيْ لِلْمُهِمِّ يُصِيْبُهُ كَثِيْرُ الْهَوٰي شَتَّي النَّوٰي وَ الْمَسَالِكِ ’’وہ پیش آنے والی مہمات کی شکایت بہت کم کرنے والا ہے، بہت سے مقاصد والا، مختلف نیتوں اور راستوں والا ہے۔‘‘ ’’شکایت بہت کم کرنے والا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ شکایت کرتا ہی نہیں۔