سورة المؤمنون - آیت 29

وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کہہ کہ اے رب تو مجھے مبارک (جگہ) اتارنا اور تو اچھا اتارنے والا ہے ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا : یہ نوح علیہ السلام کو سکھائی گئی دعا کا دوسرا حصہ ہے۔ ’’ مُنْزَلًا ‘‘ باب افعال میں سے مصدر میمی بھی ہے اور ظرف بھی، اتارنا اور اتارنے کی جگہ، یعنی اے میرے پروردگار! تو مجھے اتار، ایسا اتارنا جو بابرکت ہو اور ایسی جگہ اتار جو بہت برکت والی ہو۔ بابرکت اتارنے سے مراد یہ ہے کہ سوار ہوتے وقت کوئی تکلیف نہ ہو اور جہاں اتریں وہاں کوئی آفت نہ آئے، ہر حال میں اور ہر جگہ بڑی رحمت و برکت شامل رہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی : ﴿ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۸۰ ] ’’اور کہہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔‘‘ یہ دونوں دعائیں خود اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی ہیں جنھیں ’’ قُلْ ‘‘ کہہ کر پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں، ان دونوں دعاؤں کو ورد زبان رکھنا چاہیے، خصوصاً گھر جاتے اور گھر سے نکلتے وقت اور یہ دعائیں کرتے ہوئے دنیا کی باعزت اور بابرکت منزل کے ساتھ ہماری اصل منزل جنت کی نیت بھی رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں وہ باعزت اور بابرکت مقام عطا فرمائے۔ (آمین) وَ اَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ : اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ترجمے میں ہے اور ایک وہ ہے جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا : ﴿ وَ اَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۵۹ ] ’’اور میں بہترین مہمان ٹھہرانے والا (میزبان) ہوں۔‘‘ یعنی کشتی سے اترنے کے بعد تو ہی ہماری مہمان نوازی اور ہماری ضروریات کا بندوبست کرنے والا ہے اور تجھ سے بہتر مہمان نواز کوئی نہیں۔