سورة المؤمنون - آیت 28

فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر جب تو اور تیرے ساتھی کشتی میں چڑھ چکیں ، تو کہہ ، اللہ کا شکر ہے ، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی (ف ١) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ....: کشتی پر سوار ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد کا حکم دیا اور اس کے الفاظ خود بتائے، جیسے آدم علیہ السلام کو خود دعا سکھائی اور جیسے قیامت کے دن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حمد سکھائیں گے۔ دوسری جگہ چوپاؤں اور کشتیوں کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ (12) لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَۙ (13) وَ اِنَّا اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۠﴾ [ الزخرف : ۱۲ تا ۱۴ ] ’’اور تمھارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو، پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو، جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کر دیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہیں تھے۔ اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار ہو کر یہ دعا پڑھتے تھے : ((اَللّٰهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ، سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ وَ إِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْئَلُكَ فِيْ سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَ مِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی، اَللّٰهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فی السَّفَرِ والْخَلِيْفَةُ فِی الْأَهْلِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَآءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَ سُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ)) ’’اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کر دیا، حالانکہ ہم اسے ملنے والے نہیں تھے اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اے اللہ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور اس عمل کا جسے تو پسند کرے سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہمارا یہ سفر ہم پر آسان فرما دے اور ہم سے اس کی دوری کم کر دے۔ اے اللہ! تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر والوں میں نائب ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی مشقت سے اور مال اور اہل میں منظر کے غم سے اور ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو یہی دعا پڑھتے، البتہ یہ الفاظ زیادہ کہتے : (( آئِبُوْنَ، تَائِبُوْنَ، عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ )) [ مسلم، الحج، باب استحباب الذکر إذا رکب ....: ۱۳۴۲ ] ’’ہم واپس لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔‘‘ نوح علیہ السلام کو سوار ہو کر یہ دعا پڑھنے کا حکم ہوا : ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ﴾ [ المؤمنون : ۲۸ ] ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔ ‘‘ اور انھوں نے یہ کہہ کر ساتھیوں کو کشتی میں سوار ہونے کا حکم دیا : ﴿ بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖىهَا وَ مُرْسٰىهَا اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ ھود : ۴۱ ] ’’اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے۔ بے شک میرا رب یقیناً بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا....: ’’ الظّٰلِمِيْنَ ‘‘ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔ ظلم کا معنی ’’وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَيْرِ مَحَلِّهِ‘‘ (کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں رکھنا) ہے اور ظلم کا معنی اندھیرا بھی ہے، گویا ظالم اندھیرے میں چیزوں کو ان کے اصل محل کے بجائے ادھر ادھر رکھ دیتا ہے۔ سب سے بڑا حق اللہ کا ہے، وہ غیر کو دیا تو یہ سب سے بڑا ظلم ٹھہرا۔ (ابن عاشور) 3۔ ظالم لوگوں سے نجات پر اللہ کی حمد کا حکم اس لیے دیا کہ وہ نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بے شمار اذیتوں کا نشانہ بناتے تھے، اس کے علاوہ نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا ان میں رہنا، ان کے کفر و شرک اور گندے اور غلیظ کاموں کو دیکھنا بجائے خود شدید تکلیف دہ تھا۔ اب ان سے نجات ملی، دشمن غرق ہوئے، الگ رہنے کی جگہ ملی، اپنا ماحول اور اپنی مجلس بنی، تو اس پر شکر اد اکرنے کا حکم ہوا۔ 4۔ اسی لیے مسلمان کو دعوت یا جہاد کے مقصد کے بغیر کفار میں رہائش رکھنا حرام ہے، کیونکہ مسلسل کفر و شرک اور بدکاری و بے حیائی کا ارتکاب دیکھ دیکھ کر یا تو ہمیشہ شدید تکلیف میں رہے گا، یا اس کی اپنی غیرت و حمیت بھی ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ اگر ایسی جگہ رہتا ہے تو وہاں سے ہجرت کا حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنَا بَرِيْئٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيْمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِيْنَ )) [ أبوداؤد، الجہاد، باب النھي عن قتل ....: ۲۶۴۵ ] ’’میں ہر اس مسلم سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔‘‘