سورة المؤمنون - آیت 20

وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَاءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآكِلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ درخت پیدا کیا جو سینا (پہاڑ) سے نکلتا ہے ، کہ تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن اگاتا ہے (ف ١) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ شَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَآءَ : طور ایک مخصوص پہاڑ کا نام ہے۔ طور کا معنی پہاڑ بھی ہے۔ بعض نے کہا کہ طور وہ پہاڑ ہے جس پر درخت اگتے ہوں۔ سیناء اس پہاڑ کا نام ہے، جیسا کہ جبلِ احد کہتے ہیں، یا ’’جَبَلَا طَيْءٍ‘‘ (بنو طے کے دو پہاڑ) کہتے ہیں۔ امام طبری نے فرمایا : ’’اور ہم نے تمھارے لیے وہ درخت بھی پیدا کیا جو طور سیناء سے نکلتا ہے، یعنی اس پہاڑ سے جس پر درخت اگتے ہیں۔ مراد زیتون کا درخت ہے۔‘‘ اعراب القرآن و بیانہ از درویش میں ہے : ’’سیناء ایک شبہ جزیرہ ہے، جس کی حد شمال میں بحر ابیض متوسط ہے اور مغرب میں نہر سویز اور خلیج سویز ہے اور مشرق میں فلسطین اور خلیج عقبہ ہے اور جنوب میں وہ بحر احمر میں ’’رأس محمد ‘‘ کے پاس ختم ہوتا ہے اور سیناء ایک پہاڑ ہے جو شبہ جزیرہ سیناء میں جنوب کی طرف واقع ہے اور درخت سے مراد زیتون کا درخت ہے اور اسے طور سیناء کے ساتھ اس لیے خاص کیا گیا ہے کہ اس کا اصل وطن وہ ہے جہاں سے وہ دوسرے مقامات پر منتقل ہوا۔‘‘ کھجور اور انگور کے بعد زیتون کا خصوصیت کے ساتھ ذکر اس کے کثیر فوائد کی وجہ سے فرمایا۔ شام اور فلسطین اس کا اصلی وطن ہیں اور وہاں کا زیتون بہت عمدہ ہوتا ہے۔ شام میں زیتون اتنی کثرت سے ہے کہ گھروں، کھیتوں اور سڑکوں کے کناروں وغیرہ پر خود بخود اگا ہوا ملتا ہے۔ اس درخت کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے : ’’یہ ڈیڑھ دو ہزار برس تک چلتا ہے، حتیٰ کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے اب تک چلے آ رہے ہیں۔‘‘ (واللہ اعلم) سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے اسے شجرۂ مبارکہ قرار دیا ہے، اس کے تیل کی تعریف میں فرمایا : ﴿ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ﴾ [ النور : ۳۵ ] ’’اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہو جائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔‘‘ اور سورۃ التین میں اس کی قسم کھائی ہے۔ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِيْنَ : زیتون میں اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی قدرت کا کمال دیکھیے کہ پانی سے سیراب ہوتا ہے اور اپنے ہمراہ تیل کا خزانہ اور کھانے والوں کے لیے ایک طرح کا سالن لے کر اگتا ہے۔ ’’ صِبْغٍ ‘‘ نکرہ ہے، اس لیے ترجمہ ’’ایک طرح کا سالن‘‘ کیا گیا ہے، کیونکہ سالن بے شمار ہیں اور اس سے عمدہ اور لذیذ بھی ہیں۔ (بقاعی) اس کا تیل کھانا پکانے، سالن کے طور پر کھانے، جسم پر لگانے اور دوسری ضروریات میں کام آتا ہے اور اس کا پھل اچار کی صورت میں بھی کھانے کے کام آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوْا بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ )) [ ترمذي، الأطعمۃ، باب ما جاء في أکل الزیت : ۱۸۵۱۔ صححہ الألباني في الصحیحۃ : ۳۷۹ ] ’’زیتون کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو، کیونکہ یہ ایک مبارک درخت سے ہے۔‘‘ ابن حبان نے فرمایا : ’’کھجور، انگور اور زیتون کا خاص طور پر اس لیے ذکر فرمایا: ’’لِأَنَّهَا أَكْرَمُ الشَّجَرِ وَ أَجْمَعُهَا لِلْمُنَافِعِ‘‘ ’’کیونکہ یہ تمام درختوں سے زیادہ عمدہ ہیں اور سب سے زیادہ فوائد کے جامع ہیں۔‘‘ [ البحر المحیط ] 3۔ اگرچہ یہاں صرف زیتون کا ذکر کیا گیا ہے، مگر اس کے ضمن میں وہ تمام درخت اور پودے بھی آ گئے جن سے انسان اپنی روغنیات کی ضرورت حاصل کرتا ہے اور جنھیں کھانے کے لازمہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔