سورة البقرة - آیت 261

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان کی مثال جو راہ خدا میں اپنے مال خرچ خرچ کرتے ہیں ، اس دانہ کی مثال ہے جس سے سات بالیں اگیں ۔ اور ہر بال میں (١٠٠) سودانے ہوں ، (ف ٢) اور خدا جس کے لئے چاہے بڑھاتا ہے ، اور خدا کشائش والا ہے سب جانتا ہے ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ:قرآن مجید میں ”سَبِيْلِ اللّٰهِ“ کا لفظ عام یعنی اسلام کے معنی میں بھی آیا ہے، جیسے فرمایا:﴿اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ﴾ [التوبۃ:۳۴ ] ’’بے شک بہت سے عالم اور درویش یقیناً لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔‘‘ اس صورت میں اسلام کے ہر کام میں خرچ کرنا فی سبیل اللہ خرچ کرنا ہے اور خاص معنوں میں بھی آیا ہے، جیسا کہ سورۂ توبہ(۶۰) میں صدقات خرچ کرنے کی جگہوں میں ایک ”فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ ہے۔ وہاں ”فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ سے خاص جہاد مراد ہے، نیز صحیح بخاری میں حج کو بھی اس میں شمار کیا ہے۔ یہاں اگرچہ عام معنی بھی مراد لیا جا سکتا ہے مگر جیسا کہ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جہاد مراد لینا گزشتہ اور آئندہ آیات کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے۔