حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ
(حلال مال کھاؤ ) اللہ کے لئے یکطرفہ ہو کر نہ اس کے ساتھ شریک بنا کر ، اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا وہ گویا آسمان سے گر پڑا پھر اسے پرندے اچک لے گئے ، یا اسے ہوا نے کسی دور جگہ میں لے جا کر پٹک دیا (ف ١) ۔
1۔ حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ : ’’ أَيْ كُوْنُوْا حُنَفَاءَ‘‘ یعنی تمام معبودوں سے ہٹ کر صرف اللہ کی خالص عبادت کرنے والے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے والے بنو۔ ’’ حُنَفَآءَ ‘‘ پر نصب ’’ اجْتَنِبُوْا ‘‘ کی ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۱۶۰ تا ۱۶۳)۔ 2۔ وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ : جو شخص توحید پر قائم ہے وہ بلندی اور عزو شرف میں گویا آسمان پر ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا اور اسی کا حکم مانتا ہے۔ جب اس نے شرک کیا تو اس بلند مقام سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے راستے ہی میں اچک لیں گے، یعنی وہ بتوں کے پجاریوں یا ان زندہ یا مردہ پیروں بزرگوں کے مجاوروں کے ہتھے چڑھ جائے گا جنھوں نے ان پیروں بزرگوں کو خدا بنا رکھا ہے، یا ہوا اسے بہت دور جگہ میں گرا دے گی، یعنی اگر کسی کے قابو نہ آیا تو اللہ سے تو بدظن ہو ہی چکا ہے، پھر اسے اس کی خواہش بہت دور گہری جگہ میں گرا دے گی، یعنی سب سے منکر ہو کر دہریہ ہو جائے گا۔ دونوں صورتوں میں اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔