قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ
بولے تو اسے لوگوں کے سامنے لاؤ ، شاید وہ گواہی دیں ۔
1۔ قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰى اَعْيُنِ النَّاسِ : کہنے لگے، اگر ایسا ہے تو اسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاؤ۔ 2۔ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُوْنَ: اس کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ اسے لوگوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہو جائیں کہ یہی شخص ہے جو بتوں کی برائی بیان کرتا تھا اور ان کا بندوبست کرنے کی قسمیں اٹھاتا تھا اور اس کا مجرم ہونا ثابت ہو جائے کہ یہ کام بھی اسی کا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کوئی موقع کا گواہ بھی مل جائے، جس نے اسے بت توڑتے ہوئے دیکھا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرک ہونے کے باوجود وہ لوگ ملزم پر جرم ثابت کرنا ضروری سمجھتے تھے، جو ان کے نزدیک جرم تھا۔ بقاعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اب اللہ تعالیٰ کی جناب ہی میں ان لوگوں کی شکایت ہے جو (مسلمان ہو کر) اپنے دین کے اکابر کو بغیر کسی دلیل یا تہمت کے پکڑ کر بند کر دیتے ہیں (نہ فرد جرم، نہ کوئی گواہ اور نہ کوئی اور ثبوت، بلکہ اکثر اوقات انھیں بے گناہی کے جرم میں پکڑ لیتے ہیں)۔‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہو جائیں اور آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اس کے ساتھ کیسا عبرتناک سلوک کیا جاتا ہے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کی جرأت نہ ہو۔ وہ تو ابراہیم علیہ السلام کو مجرم ثابت کرنے کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر رہے تھے مگر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام کی دلی تمنا پوری ہونے کا سامان ہو رہا تھا کہ کسی طرح سب لوگ جمع ہوں تو وہ ان کے سامنے بتوں کی بے بسی اور مشرکوں کی بے عقلی واضح کریں، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے لیے عید کے دن دوپہر کے وقت تمام لوگوں کو کھلے میدان میں جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دیکھیے سورۂ طٰہٰ(۵۸، ۵۹)۔