وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور تجھ سے پہلے جو ہم نے بھیجے وہ بھی آدمی ہی تھے ان پر ہم وحی بھیجتے تھے ، سو اگر تم نہیں جانتے تو یاد رکھنے والوں (یعنی اہل کتاب) سے پوچھ لو (ف ١) ۔
1۔ وَ مَا اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا....: یہ ’’ هَلْ هٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ‘‘ (یہ تم جیسے ایک بشر کے سوا ہے کیا) کا جواب ہے، یعنی وہ تمام رسول جو آپ سے پہلے آئے، جن کے رسول ہونے کو یہ بھی مانتے ہیں، مثلاً ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق علیہم السلام وغیرہم، وہ سب بشر تھے، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ تو یہ لوگ آپ کو بشر ہونے کی وجہ سے رسول کیوں نہیں مانتے؟ دیکھیے سورۂ انعام (۹۱) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ((كَانَ بَشَرًا مِّنَ الْبَشَرِ يَفْلِيْ ثَوْبَهُ وَ يَحْلِبُ شَاتَهُ وَيَخْدِمُ نَفْسَهُ)) [مسند أحمد :6؍256، ح : ۲۶۲۴۸۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۶۷۱ ] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنا کپڑا خود ٹٹول لیا کرتے تھے اور اپنی بکری کا دودھ خود دوہ لیتے تھے اور اپنا کام خود کر لیتے تھے۔‘‘ زمین میں اگر فرشتے رہا کرتے تو رسول بھی فرشتہ آتا، اب انسان بستے ہیں تو ان کے لیے نمونہ اور ان کی رہنمائی کرنے والا انسان ہی ہو سکتا ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۴، ۹۵)۔ 2۔ فَسْـَٔلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ....: اس جملے کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نحل (۴۳)۔