لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
ان کے دل کھیل میں پڑے ہیں اور ظالموں نے چپکے چپکے مصلحت کی (کہتے ہیں) یہ تو تم ہی جیسا ایک آدمی ہے ، پھر تم اپنی آنکھوں دیکھے جادو میں کیوں پڑتے ہو ؟ (ف ١) ۔
1۔ لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى....: ’’ لَاهِيَةً ‘‘ ’’ لَهِيَ يَلْهٰي ‘‘ (ع) یا ’’ لَهَا يَلْهُوْ‘‘ (ن) سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے۔ ’’ لَهْوٌ‘‘ وہ چیز ہے جو انسان کو اس کے ضروری اور اہم کاموں سے کسی اور کام میں مشغول کر دے۔ (راغب) جیسا کہ مادہ پرست لوگ آخرت کی فکر چھوڑ کر صرف دنیا کی طلب میں مشغول ہیں۔ آج کل کے علوم و فنون سائنس، آرٹ وغیرہ میں کوئی چیز ایسی نہیں جو آخرت کی یاد دلانے والی ہو، بلکہ یہ سب روشن خیالیاں دن بدن موت اور آخرت کی فکر سے دور لے جا رہی ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ روم (۶، ۷)۔ 2۔ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى : یہاں نحو کا ایک مشہور سوال ہے کہ جب فاعل ظاہر ہو تو خواہ وہ واحد ہو یا تثنیہ یا جمع، فعل واحد کے صیغے کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں ’’الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ‘‘ فاعل ظاہر ہونے کے باوجود فعل جمع کے صیغے کے ساتھ کیوں آیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ’’ اَسَرُّوا ‘‘ کا فاعل ضمیر جمع ہے اور ’’ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ‘‘ اس سے بدل ہے، یعنی کفار نے باہمی خفیہ مشورے سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رکھنے کے لیے خفیہ مشاورت کرکے طے کیا کہ لوگوں سے یہ کہو اور خفیہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ان کی طے کردہ بات ہے تو وہ اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔ 3۔ هَلْ هٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ....: یعنی یہ کوئی فرشتہ نہیں ہے، بلکہ تمھاری طرح کا ایک انسان ہے، اب جو یہ معجزات دکھاتا ہے اور اس کلام کو سن کر لوگ گرویدہ ہو رہے ہیں تو یہ سب جادو ہے۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دو طرح سے طعن کیا، ایک یہ کہ آپ بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۴)، تغابن (۶)، قمر (۲۴)، مومنون (۳۳، ۳۴)، فرقان (۷) اور ابراہیم (۱۰) پہلے کفار و مشرکین کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا، آج کل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا، بات ایک ہی ہے، ﴿ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ ﴾ [المؤمنون : ۸۱ ] ’’بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آگے اس کا رد فرمایا۔ دوسرا طعن یہ تھا کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ جادو ہے۔ کفار کا یہ طعن بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ مدثر (۲۴) اور ذاریات (۵۲)۔