وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَىٰ
اور ہم نے فرعون کو اپنے کل معجزے دکھائے سو اس نے جھٹلایا اور نہ مانا ۔
وَ لَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا....: یہ آیت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی باہمی گفتگو ذکر کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے قصے کو دوبارہ آگے بیان کرنے سے پہلے جملہ معترضہ کے طور پر آئی ہے، یعنی فرعون کفر میں اتنا پکا تھا کہ ہماری تمام نشانیاں دیکھنے اور موسیٰ علیہ السلام کو دل سے سچا سمجھنے کے باوجود ایمان نہیں لایا، حتیٰ کہ اس نے آخری نشانی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی کہ سمندر پھٹ گیا اور اس کے پانی کا ہر حصہ ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل ان راستوں سے بخیریت گزر گئے (شعراء : ۶۳ تا ۶۶)، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لایا، بلکہ اپنے رب ہونے کے جھوٹے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لیے پوری فوج کو لے کر سمندر میں داخل ہو کر غرق ہوا، مگر غرق ہونے سے پہلے تک وہ جھٹلاتا اور انکار ہی کرتا رہا۔ دیکھیے سورۂ قمر (۴۱، ۴۲) اور یونس (۹۰ تا ۹۲)۔