الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ
وہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں تمہارے لئے سڑکیں چلائیں اور آسمان سے پانی اتارا سو اس سے ہم نے مختلف اقسام کی سبزی بوٹی نکالی ۔
1۔ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا....: یہ دونوں آیات موسیٰ علیہ السلام کا کلام بھی ہو سکتی ہیں، جسے نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زمین سے مختلف نباتات نکالنے کا ذکر آنے پر اپنے لیے غائب کے صیغوں کے بعد جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرما دیا، یعنی ’’ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ اَزْوَاجًا ‘‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا کلام ’’وَ لَا يَنْسَى ‘‘ پر ختم ہو گیا ہو اور ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مقام کی مناسبت سے اپنی مزید نعمتیں بیان فرمائی ہوں۔ اس صورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا ذکر غائب کے صیغے سے فرمایا اور ’ فَاَخْرَجْنَا ‘‘ میں اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا۔ 2۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار نعمتیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی نعمت زمین کو انسان کے لیے بچھونا بنانا۔ اس کا ذکر کئی آیات میں فرمایا۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۹، ۱۰)، سورۂ نبا (۶)، ذاریات (۴۸) اور رعد (۳) وغیرہ۔ دوسری نعمت زمین میں راستے بنانا سکھایا۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۹)، انبیاء (۳۱)، نوح (۱۹) اور نحل(۱۵) تیسری نعمت آسمان سے پانی اتارنا، اس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے۔ چوتھی نعمت بنی آدم اور ان کے مویشیوں کے لیے بے شمار قسم کی کھانے اور استعمال کی چیزیں اگانا۔ دیکھیے سورۂ سجدہ (۲۷)، نازعات (۳۱ تا ۳۳)، عبس (۲۵ تا ۳۲) اور سورۂ نحل (۱۰)۔ (شنقیطی) 3۔ ’’ شَتّٰى ‘‘ ’’شَتِيْتٌ‘‘کی جمع ہے، مختلف، جیسا کہ ’’مَرِيْضٌ‘‘ کی جمع ’’مَرْضٰي‘‘ہے۔ ’’النُّهٰى ‘‘ ’’ نُهْيَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی عقل ہے، کیونکہ عقل انسان کو نامناسب کاموں سے منع کرتی ہے۔ ’’نَهٰي يَنْهٰي‘‘ کا معنی ہے منع کرنا۔