سورة طه - آیت 51

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بولا پہلی امتوں کا کیا حال ہے ؟ ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى: یہ سوال پوچھنے کی تین وجہیں ہو سکتی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں سب کا حل موجود ہے۔ پہلی وجہ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کے الفاظ میں یہ ہے : ’’فرعون شاید دہریہ مزاج تھا۔ آدمیوں کی پیدائش کو سمجھتا تھا جیسے برسات کا سبزہ، نہ اول کسی نے پیدا کیا، آپ ہی پیدا ہو گیا، نہ آخر باقی رہا، گل کر مٹی ہو گیا۔ جب سنا کہ سب کے سر پر ایک رب ہے تب یہ پوچھا کہ اگلی خلق کہاں گئی؟ بتایا ان کا حساب لکھا ہوا موجود ہے کہ ایک ایک آدمی پھر حاضر ہو گا۔‘‘ (موضح) دوسری وجہ اس کے یہ پوچھنے کی کہ پھر پہلے زمانوں کے لوگوں کا کیا حال ہے، یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہ کہلوانا چاہتا تھا کہ جو لوگ سیکڑوں برس سے نسلاً بعد نسل دوسروں کو اپنا رب سمجھتے اور ان کی بندگی کرتے رہے ہیں وہ سب گمراہ اور مستحق عذاب تھے۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ جب موسیٰ علیہ السلام ان کو گمراہ اور مستحق عذاب قرار دیں گے تو ان کے خلاف تمام لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھیں گے اور وہ ان کی دعوت سے متنفر ہو جائیں گے۔ اہل حق کے خلاف اہل باطل جاہلوں کو مشتعل کرنے کا یہ ہتھکنڈا ہمیشہ سے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسے کارگر حربہ سمجھتے ہیں۔ سورۂ شعراء کی آیات (۲۳ تا ۲۹) کی روشنی میں یہ مطلب سب سے واضح نظر آتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس معاملے کو اللہ کے علم کے سپرد کر دیا، چنانچہ فرعون کا وار خالی گیا۔ تیسری وجہ یہ کہ فرعون یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ رسول تو عالم الغیب ہوتے ہیں، اگر تم واقعی رسول ہو تو پہلے یہ بتاؤ کہ پہلے زمانوں کے لوگوں کا کیا حال ہے، ان کا حال ہمیں بتاؤ۔ مقصد یہ تھا کہ جب نہیں بتا سکیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ یہ کیسا رسول ہے جو پہلے زمانوں کے لوگوں کے احوال بھی نہیں جانتا؟ جواب یہ دیا کہ یہ جاننا رسولوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ رب تعالیٰ کا کام ہے۔