مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ
قرآن ہم نے تجھ پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ تو مشقت کھینچے ۔
مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى : ’’شَقِيَ يَشْقٰي شَقَاوَةً وَ شَقَاءً‘‘ بروزن ’’رَضِيَ يَرْضَي‘‘ یہ سعادت کی ضد ہے۔ سعادت کی دو قسمیں ہیں، دنیوی اور اخروی۔ اسی طرح شقاوت کی بھی دو قسمیں ہیں، دنیوی اور اخروی۔ اخروی شقاوت بدبختی و بدنصیبی ہے، جیسا کہ کفار کہیں گے : ﴿ رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا ﴾ [المؤمنون : ۱۰۶ ] ’’پروردگارا! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی۔‘‘ دنیوی شقاوت ایسے کاموں میں پھنس جانا جو مشقت اور تھکاوٹ کا باعث ہوں، جیسے کہتے ہیں’’ فُلاَنٌ أَشْقَي مِنْ رَائِضِ مُهْرٍ ‘‘ ’’فلاں گھوڑی کے بچھیرے کو سدھانے والے سے بھی زیادہ مشقت اور مصیبت میں پھنسا ہوا ہے۔‘‘ مفسرین نے اس آیت کے دو معنی بیان فرمائے ہیں اور دونوں درست ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کے بعد ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں، اس کے لیے آپ دن رات دعوت و تبلیغ کے لیے اتنی مشقت اٹھاتے اور کفار کی بے رخی پر اس قدر غمزدہ ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ اتنی بھی مشقت اور فکر کیا کہ آپ مصیبت ہی میں پڑ جائیں، ہم نے آپ پر یہ قرآن شقاوت کے لیے نہیں بلکہ آپ کی سعادت کے لیے اتارا ہے۔ آپ کے ذمے یہ نہیں کہ تمام لوگوں کو مسلمان کرکے چھوڑیں۔ آپ کا کام نصیحت ہے، پھر جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ قبول کر لے گا، دوسروں کے آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ لوگوں کے مسلمان نہ ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم و افسوس کا اور آپ کو تسلی دینے کا ذکر بہت سی آیات میں ہے، مثلاً : ﴿ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا ﴾ [الکہف : ۶ ] ’’پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کر لینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ﴾ [الشعراء : ۳ ] ’’شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔‘‘ دوسرا معنی اس آیت کا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت خصوصاً قیام میں بہت محنت کرتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں میانہ روی کا حکم دیا اور فرمایا : ﴿ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ﴾ [المزمل : ۲۰ ] یعنی اے نبی! آپ جتنا قیام آسانی سے کر سکتے ہیں کریں۔ تفصیل کے لیے سورۂ مزمل کا آخری رکوع ملاحظہ فرمائیں۔