وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا
اور کہتے ہیں کہ رحمن بیٹا رکھتا ہے ۔
1۔ پہلی آیات سے مناسبت یہ ہے کہ جب شفاعت کی نفی فرمائی اور سب سے بڑھ کر شفاعت کی حق دار اولاد ہوتی ہے، اس لیے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رکھی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی نفی فرمائی، تاکہ خاص و عام ہر سفارشی کی نفی ہو جائے اور ہر اس عزت کی نفی ہو جائے جس کے حصول کا باعث وہ اپنے معبودوں کو سمجھتے تھے۔ (بقاعی) 2۔ وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا : اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کے باطل ہونے کی دلیل بھی ذکر فرما دی کہ وہ کہتے ہیں کہ اس رحمان نے اولاد بنا رکھی ہے جس کی بے پناہ رحمت سے ساری کائنات وجود میں آئی ہے اور ہر چیز اپنی بقا کے لیے اسی کی محتاج ہے، جبکہ وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں، فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ﴾ [فاطر : ۱۵ ] ’’اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔‘‘ بیٹا باپ کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ باپ اپنی کمزوری کی وجہ سے اولاد کا محتاج ہوتا ہے اور جس عقیدے، یعنی مسیح کو کفارہ بنانے کے لیے اسے اللہ کا بیٹا قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کو رحمان ماننے کے بعد اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ 3۔ یہود عزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، جبکہ امت مسلمہ کے کئی نادان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا جزو قرار دیتے ہیں۔ 4۔ لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا....: اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد قرار دینے والوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شدت غضب میں ان ظالموں کو مخاطب فرما کر بات کی اور تاکید کے دو لفظوں ’’لام‘‘ اور ’’قَدْ‘‘ کے ساتھ، جن کے جمع ہونے سے قسم کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے، فرمایا قسم ہے کہ تم ایک بہت ہی بھاری بات تک آ پہنچے ہو، جو اس قدر خوفناک اور بھاری ہے کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے تصور اور اس بات کے بوجھ سے ’’سَبْعٌ شِدَادٌ‘‘ یعنی ساتوں نہایت مضبوط آسمان پھٹ پڑیں، یہ وسیع اور محکم زمین شق ہو جائے اور انتہائی ٹھوس اور سخت پہاڑ مٹی کی بوسیدہ دیوار کی طرح ڈھے کر گر پڑیں کہ ان لوگوں نے (یہاں پھر نفرت سے مشرکوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا ہے) رحمن کے لیے اولاد کا دعویٰ کر دیا، حالانکہ رحمان کے لائق ہی نہیں کہ وہ (کسی کو بھی، خواہ پیغمبر ہو یا فرشتہ) اولاد بنائے۔ قوسین کے الفاظ مفعول اول ہیں جو محذوف ہیں، ’’وَلَدًا‘‘ مفعول ثانی ہے، یعنی اس کی اولاد ہونا ناممکن اور محال ہے، اس لیے کہ اولاد ہم جنس ہوتی ہے اور اللہ کا کوئی ہم جنس نہیں۔ پھر اولاد کمزوری میں سہارے کے لیے ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ہر کمزوری سے پاک اور اپنی ذات و صفات میں ہر ایک سے بے نیاز ہے۔ وہ ہمیشہ سے عزیز و غالب ہے اور ہمیشہ عزیز و غالب رہے گا۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس کے علاوہ اولاد بیوی سے ہوتی ہے اور خاوند بیوی کا محتاج ہوتا ہے، جب اللہ کی بیوی ہی نہیں اور وہ کسی کا محتاج ہی نہیں تو اولاد کیسی؟ فرمایا : ﴿ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ﴾ [الأنعام : ۱۰۱ ] ’’اس کی اولاد کیسے ہو گی، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں۔‘‘ 5۔ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا : آسمان و زمین میں جو بھی ہے اس کا غلام بن کر حاضر ہونے والا ہے۔ اگر کوئی اولاد ہوتی تو غلام کیسے ہوتی؟ 6۔ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّا : اللہ تعالیٰ نے سب کا احاطہ کر رکھا ہے، ایک ایک اس کے شمار میں ہے اور سب اکیلے اکیلے اس کے پاس آنے والے ہیں، اگر زمین و آسمان میں کوئی بھی اس کی اولاد ہوتا تو یقینا اسے معلوم ہوتا۔ کیا تم اللہ سے بھی زیادہ باخبر ہو، فرمایا : ﴿ قُلْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ ﴾ [یونس : ۱۸ ] ’’کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں؟ ‘‘ نیز دیکھیے سورۂ یونس (۶۸)، بنی اسرائیل (۴۰) اور نجم (۱۹ تا ۲۲) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيْسَ أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلٰی أَذًی سَمِعَهٗ مِنَ اللّٰهِ إِنَّهُمْ لَيَدْعُوْنَ لَهٗ وَلَدًا وَ إِنَّهٗ لَيُعَافِيْهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ )) [بخاری، الأدب، باب الصبر في الأذی : ۶۰۹۹ ] ’’اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات پر صبر کرنے والا، جسے وہ سن رہا ہو اور کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد بتاتے ہیں اور وہ (اس کے باوجود) انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔‘‘