وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا
اور مجھے مبارک کیا جہاں کہیں میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ، جب تک میں زندہ ہوں ۔
1۔ وَ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ : ’’مُبٰرَكًا ‘‘ یہاں باب مفاعلہ مقابلے کے معنی میں نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بہت برکت والا۔ برکت کا معنی خیر کثیر ہے جو ’’ بِرْكَةٌ ‘‘ سے ہے، جس کا معنی تالاب ہے جس میں بہت پانی ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے لوگوں کے لیے بہت خیر و برکت اور نفع پہنچانے والا بنایا ہے۔ 2۔ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ : نماز اور زکاۃ کی خاص تاکید کی وجہ کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۵، ۱۱) اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز، زکاۃ اور شریعت کے دوسرے احکام موت تک کسی کو معاف نہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فوت ہونے تک عبادت کا حکم ہوا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ ﴾ [الحجر : ۹۹ ] ’’اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین (موت) آ جائے۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملی تو توحید کی تاکید کے بعد نماز کا حکم ہوا۔ دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۴) ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے نماز کا پابند رہنے کی دعا کی۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۴۰) جب اولوالعزم پیغمبروں کو کسی صورت نماز معاف نہیں ہوئی تو بعض صوفیوں کو کیسے معاف ہو گئی اور پیغمبروں کو صرف دل کی نماز کافی نہیں ہوئی تو انھیں کیسے کافی ہو گئی؟ درحقیقت یہ لوگ اسی سورۂ مریم کی آیت (۵۹) کی حقیقی تصویر ہیں۔ 3۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے یہ بات موجود تھی کہ کچھ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کو معبود بنائیں گے، اس لیے انھیں ساری زندگی نماز اور زکاۃ کا حکم دیا، تاکہ سب لوگ جان لیں کہ جو خود کسی معبود کے سامنے نماز پڑھتا ہے وہ کسی صورت معبود نہیں ہو سکتا۔ (بقاعی)