سورة مريم - آیت 27

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر مریم (علیہ السلام) لڑکے کو اپنے لوگوں کے پاس گود میں لائی ، بولے اسے مریم علیہا السلام تونے بہت بری حرکت کی ،

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ: اپنے بچے کی بات سن کر اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کرامات دیکھ کر مریم علیھا السلام کو اطمینان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ وہ ایام نفاس گزرنے اور طبیعت بحال ہونے کے بعد کسی جھجک کے بغیر اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے اپنے لوگوں کے پاس آ گئیں۔ قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْـًٔا فَرِيًّا : ’’فَرَي يَفْرِيْ ‘‘ (ض) کا معنی چمڑے کو قطع کرنا ہے۔ ’’فَرِيًّا ‘‘ بروزن ’’فَعِيْلٌ‘‘ بمعنی فاعل یا مفعول ہے، قطع کرنے والی یا قطع کی ہوئی، یعنی عام عادت اور معمول کے خلاف چیز، اس لیے اس کا معنی بعض نے عظیم، بعض نے عجیب اور بعض نے منکر یعنی انوکھی کیا ہے۔ بہتان کو بھی افترا کہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ لفظی معنی ہے ’’تو ایک انوکھی چیز کو آئی ہے ‘‘ یعنی تو نے ایک انوکھا کام کیا ہے۔ مراد کنواری کے ہاں بچے کی پیدائش ہے۔