سورة البقرة - آیت 220

فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یتیموں (ف ٢) کی بابت تجھ سے پوچھتے ہیں تو کہہ ان کا سفوارنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا خرچ اپنے میں ملا رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خرابی کرنے والے اور سنوارنے والے کو جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تم پر مشکل ڈال دیتا ، بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ:اس کا تعلق اس سے پہلی آیت ”لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ“ کے ساتھ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لیے شراب اور جوئے میں دنیا کے فائدے اور دنیا اور آخرت میں ان کے نقصانات اور ان کا کبیرہ گناہ ہونا اور شراب اور جوئے کے بجائے اللہ کے راستے میں اپنی بہترین چیزیں خرچ کرنا کھول کر بیان کر رہا ہے، تاکہ تم چند روزہ دنیا اور ہمیشہ رہنے والی آخرت دونوں میں خود ہی غور وفکر کر لو کہ عقل سے کام لے کر تم کس کو ترجیح دیتے ہو۔ 2۔ ”الْيَتٰمٰى“جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ بالغ ہونے تک یتیم ہے۔ ”لَاَعْنَتَكُمْ“ ”عَنَتٌ“ کا معنی مشقت ہے، جیسے سورۂ توبہ (۱۲۸) میں ہے:﴿عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ ﴾ ’’اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔‘‘ ”اَعْنَتَ“ باب افعال سے ماضی معروف ہے اور ’’اِعْنَاتٌ‘‘ اس سے مصدر ہے، جس کے معنی ہیں، آدمی کو ایسی مشقت میں ڈالنا جس میں ہلاکت کا خطرہ ہو۔ (راغب) اِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ:”اِصْلَاحٌ“ کی تنوین کی وجہ سے ’’کچھ نہ کچھ سنوارتے رہنا‘‘ ترجمہ کیا ہے، یعنی ان کے مال کی حفاظت کے ساتھ ان کی تعلیم، اخلاق، صحت اور تمام معاملات کی کچھ نہ کچھ اصلاح جو تمہارے بس میں ہو کرتے رہنا، انھیں یتیم سمجھ کر باز پرس نہ کرنے سے بہت بہتر ہے۔ وَ اِنْ تُخَالِطُوْهُمْ:ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’جب یہ آیت اتری:﴿وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ ﴾ [ بنی إسرائیل:۳۴ ] ’’اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہے‘‘ تو لوگوں نے یتیموں کے اموال الگ کر دیے، چنانچہ یتیموں کا کھانا خراب اور گوشت بدبودار ہونے لگا۔‘‘یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کی گئی اور اس پر یہ آیت اتری تو لوگوں نے انھیں اپنے ساتھ ملا لیا۔ [ مسند أحمد :1؍325، ح:۳۰۰۴۔ مستدرک حاکم:2؍306، ح :۳۱۰۳، صححہ الحاکم و وافقہ الذھبی و حسنہ الألبانی ] وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ:مگر اللہ تعالیٰ نے تم پر مشقت نہیں ڈالی، بلکہ آسانی اور وسعت پیدا فرمائی۔ چنانچہ اصلاح کی نیت سے انھیں اپنے ساتھ ملا سکتے ہو اور اگر محتاج ہو تو بقدر خدمت و ضرورت ان کے مال سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہو،جیساکہ فرمایا:﴿وَ مَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [ النساء:۶ ] ’’اور جو غنی ہو تو وہ بہت بچے اور جو محتاج ہو تو وہ جانے پہچانے طریقے سے کھا لے۔‘‘