وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا
اور وہ (یہود) تجھ سے (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں ، تو کہہ ، اب اس کا ذکر میں تمہارے سامنے پڑھتا ہوں ۔
1۔ وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ: واؤ کے ساتھ ذوالقرنین کے قصے کا موسیٰ علیہ السلام کے قصے پر عطف ہے۔ بقاعی رحمہ اللہ نے فرمایا، موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے ساتھ قصہ میں علم کے حصول کے لیے سفروں کا ذکر تھا اور ذوالقرنین کے قصہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفروں کا ذکر ہے۔ چونکہ علم عمل کی بنیاد ہے اس لیے اس کا ذکر پہلے فرمایا۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ دو باغوں والے شخص اور ابلیس کے تکبر اور ان کے انجام کے بعد موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم پیغمبر کا اتنے مرتبے کے باوجود اور ذوالقرنین جیسے عظیم بادشاہ کا مشرق و مغرب کی سلطنت کے باوجود ہر قسم کے کبر و غرور سے پاک ہونے کا اور حد درجہ کی تواضع اختیار کرنے کا ذکر فرمایا، تاکہ ان کے نقش قدم پر چلا جائے۔ 2۔ ذوالقرنین کون تھا، کس ملک کا تھا، قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ اتنا واضح ہے کہ عرب کے لوگ اس سے واقف تھے۔ ان کے شعروں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، اس لیے انھوں نے اس کے متعلق سوال کیا، مگر ان سے گزشتہ فاتح فرماں رواؤں میں سے کسی ایک کی تعیین نہیں ہوتی، اس لیے مفسرین میں اس کے متعلق بہت ہی اختلاف ہے۔ آلوسی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابوریحان البیرونی نے اپنی کتاب ’’ اَلْآثَارُ الْبَاقِيَةُ عَنِ الْقُرُوْنِ الْخَالِيَةِ ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ ذوالقرنین (یمن کا) ابوکرب حمیری ہے، جس کی اولاد ہونے پر، مشرق و مغرب کا بادشاہ ہونے پر اور مسلم ہونے پر تبع یمنی نے اپنے اشعار میں فخر کا اظہار کیا ہے، جو روح المعانی میں منقول ہیں۔ البیرونی نے اس قول کے حقیقت کے سب سے زیادہ قریب ہونے کا ایک قرینہ یہ لکھا ہے کہ یمن کے بادشاہوں کے لقب لفظ ’’ذو ‘‘ سے شروع ہوتے تھے، جیسے ذو نواس اور ذویزن وغیرہ۔ بعض نے یونانی فاتح سکندر مقدونی کو اس کا مصداق ٹھہرایا ہے، جیسے علامہ قاسمی رحمہ اللہ وغیرہ، جب کہ بہت سے مفسرین مثلاً ابن قیم، طنطاوی اور آلوسی وغیرہ نے شدت سے اس کی تردید کی ہے، کیونکہ یہ سکندر ارسطو کا شاگرد اور بت پرست تھا، جب کہ قرآن میں مذکور ذوالقرنین مومن، موحد اور متقی تھا۔ برصغیر کے ایک مفسر نے ذو القرنین کے متعلق قرآن میں مذکور صفات ایرانی بادشاہ خورس پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے، ان کے بعد آنے والے ایک صاحب نے تاریخ اور بائبل سے خورس ہی کو سب سے زیادہ ذوالقرنین کا مصداق ٹھہرانے کا حق دار قرار دیا ہے۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ بعض کے نزدیک اس سے مراد ایک اور بادشاہ ہے جو ابراہیم علیہ السلام کا ہم عصر تھا اور ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی سے اللہ تعالیٰ نے اسے خارق عادت اسباب و وسائل عطا فرمائے۔ اس کے وزیر خضر تھے، اس لیے خضر کے قصے کے ساتھ اس کا قصہ بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس کو ترجیح دی ہے۔ ابن کثیر نے اس کا نام بھی اسکندر بیان کیا ہے۔ یہ ہیں بڑے بڑے اہل علم یا متجد دین کے اقوال جن کا ماخذ جاہلی اشعار ہیں، جن کی کوئی سند نہیں، یا زمانۂ قبل مسیح کی تاریخ، جس کے مؤرخین کا حال قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہے نہ ان کی ثقاہت، یا آثار قدیمہ ہیں جن کی معدوم زبانیں یورپی کفار نے اندازے سے پڑھیں، جو کسی طرح بھی اعتماد کے قابل نہیں، یا بائبل جس میں مذکور باتوں کو (جو نہ قرآن و حدیث کے مطابق ہوں نہ مخالف) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نہ سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ پھر ایسی باتوں پر یقین کیسے ہو سکتا ہے!؟ لطف یہ ہے کہ جو بھی نیا مفسر نئی سے نئی بات نکال کر قدیم تاریخ، آثار قدیمہ، جاہلی اشعار، بائبل کے اقوال کا ڈھیر لگا دیتا ہے وہ اتنا ہی بڑا صاحب کمال گنا جاتا ہے، حالانکہ ان میں سے کسی سے بھی یقین کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کسی قصے کو تاریخ کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے ان حصوں کو اجاگر کرتا ہے جن سے عبرت اور سبق حاصل ہو۔ قرآن کے مطابق ذوالقرنین اللہ کا نیک بندہ تھا جس نے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے مشرق سے مغرب تک اللہ کے دین کو غالب کیا اور اپنے محروسہ (ماتحت) ممالک میں امن قائم کیا اور انھیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کی نہایت عمدہ تدبیر کی۔ اگر ہم کسی قابل یقین ذریعے سے اس کی تعیین نہ کر سکیں یا اس کے مفصل حالات معلوم نہ کر سکیں تو قرآن کے منشا و مقصد میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ آخر کتنے ہی نبی ہیں جن کے نام قرآن و حدیث میں نہیں۔ دیکھیے سورۂ مومن (۷۸) تو کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر امت میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گزرا ہے، ہم ان ناقابل اعتماد ذرائع سے ہند، چین، روس، یورپ اور افریقہ میں آنے والے نبیوں کے نام متعین کرنے کی بے کار کوششوں میں وقت ضائع کریں گے، تاکہ لوگ کہیں واہ ! کیا بات نکالی ہے۔ 3۔ ذوالقرنین کے اس لقب کی مختلف وجہیں بیان کی گئی ہیں، کیونکہ قرن کے کئی معانی ہیں، سینگ، کنارا، بالوں کی مینڈھی۔ دو سینگوں والا سے مراد مرد شجاع ہے، کیونکہ عرب شجاع آدمی کو کبش کہتے ہیں، کیونکہ مینڈھا اپنے سینگوں سے ٹکر مارتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے تاج پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ زمین کے مشرق و مغرب کے دونوں کناروں تک پہنچا۔ چوتھی یہ کہ اس کے سر کے بالوں کی دو مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں۔ یہ چاروں باتیں بیک وقت بھی وجہ تسمیہ ہو سکتی ہیں۔ 4۔ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا : ’’ ذِكْرًا ‘‘ تنوین کی وجہ سے ترجمہ ’’کچھ ذکر‘‘ کیا گیا ہے، یعنی اس کی پوری تاریخ نہیں بلکہ کچھ ذکر بیان کروں گا جس سے تم نصیحت اور سبق حاصل کر سکو۔