وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
اور وہ (ف ٣) ۔ دیوار جو تھی سو شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی ، اور اس کے نیچے ان کا خزانہ گڑا تھا ، اور ان کا باپ نیک شخص تھا ، سو تیرے رب نے چاہا ، کہ وہ دونوں جوان ہو کر اپنا وہ خزانہ تیرے رب کی رحمت سے (خود) نکالیں ، اور میں نے یہ کام اپنی طرف سے نہیں کیا ، یہ اس کا بھید ہے جس پر تو صبر نہ کرسکا ۔
1۔ وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا : اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کی وفات کے بعد بھی ان کی مومن اولاد کی خاص نگہداشت فرماتا ہے اور قیامت کو بھی انھیں خاص رعایت دے گا۔ دیکھیے سورۂ طور (۲۱)۔ 2۔ ان تینوں واقعات کی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے خضر علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ادب کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہے۔ کشتی کو عیب دار کرنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے، لڑکے کے قتل کے ارادہ کی نسبت اپنی طرف اور اس کے صالح باپ کو بہتر اولاد عطا کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے اور یتیم لڑکوں کے بالغ ہو کر اپنا خزانہ سنبھالنے کے ارادہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے۔ 3۔ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ : یہ خضر علیہ السلام کے نبی ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ کسی ولی کو اللہ کی طرف سے الہام کی بنا پر کسی بد سے بد کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں، کیونکہ اس کے الہام میں شیطان دخیل ہو سکتا ہے۔ ’’ لَمْ تَسْطِعْ ‘‘ اصل میں ’’ لَمْ تَسْتَطِعْ‘‘ تھا، تخفیف کے لیے تاء کو حذف کر دیا۔ خضر علیہ السلام کے کلام کی ابتدا میں ’’ لَمْ تَسْتَطِعْ‘‘ ہے، کیونکہ وہاں بات شروع ہو رہی ہے، اختصار کی ضرورت نہیں، بات ختم ہونے پر قصہ مختصر کیا جاتا ہے، اس لیے یہاں ’’ لَمْ تَسْطِعْ ‘‘ فرمایا۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی بوجھ تھا تو ثقیل لفظ بولا اور وضاحت کے بعد بوجھ اتر جانے پر خفیف لفظ بولا ہے۔