وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَٰهًا ۖ لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا
اور ان کے دل پر ہم نے گرہ لگائی کہ جب وہ اٹھے بولے ، ہمارا رب زمین اور آسمان کا رب ہے ہم ہرگز اس کے سوا کسی اور معبود کو نہ پکاریں گے ورنہ ہمارا قول عقل سے دور ہوگا ۔
1۔ وَ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ : ’’ رَبْطٌ ‘‘ کا معنی باندھنا ہے، یعنی بادشاہ اور قوم کے ڈر سے جس گھبراہٹ اور پریشانی کا خطرہ تھا اس سے بچانے کے لیے ہم نے ان کے دلوں پر بند باندھ دیا، جس سے وہ مضبوط ہو گئے، جس طرح بکھری ہوئی چیزیں گٹھڑی میں ڈال کر ان کو گرہ لگا کر مضبوطی سے باندھ دیا جائے تو وہ بکھرنے سے بچ جاتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ان کے دلوں پر بند باندھ دینے سے وہ حق گوئی کے وقت ہر قسم کے خوف سے محفوظ ہو گئے۔ 2۔ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ....: یعنی جب وہ بادشاہ کے سامنے اس کے بھرے دربار میں کھڑے ہوئے اور انھوں نے صاف اعلان کر دیا کہ ہم نہ بادشاہ کو اپنا رب مانتے ہیں نہ تمھارے بتوں کو، بلکہ ان سے ہزاروں لاکھوں سال پہلے موجود آسمانوں اور زمین کے رب کو اپنا رب مانتے ہیں۔ یہ توحیدِ ربوبیت کا اعلان تھا کہ رب صرف ایک ہے۔ ’’اور ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہر گز نہ پکاریں گے‘‘ یہ توحید الوہیت کا اعلان ہے کہ ہم عبادت بھی صرف اسی کی کریں گے، اسی سے دعا، اسی سے امید اور اسی سے خوف رکھیں گے۔ اگر ہم بادشاہ کو یا اس کے بتوں کو رب یامعبود مانیں تو اس وقت ہم بہت بڑی زیادتی کی بات کہیں گے۔ ’’ شَطَطًا ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے، کیونکہ شرک سے بڑھ کر نہ کوئی ظلم ہے نہ زیادتی۔ گویا یہ آیت اور سورۂ لقمان (۱۳) میں لقمان علیہ السلام کا قول : ﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ہم معنی ہیں۔ ’’ اِذْ قَامُوْا ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جب انھوں نے اپنی قوم کے باطل عقائد و اعمال چھوڑنے کا پختہ عزم کر لیا اور توحید کی دعوت لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ تقریر کی جو آگے مذکور ہے۔