ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا
پھر ہم نے انہیں جگایا ، تاکہ ہم معلوم کریں کہ دونوں فرقوں میں سے کس نے ان کے (غار میں) رہنے کی مدت یاد رکھی ہے ۔
ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَيُّ الْحِزْبَيْنِ ....: ’’بَعَثَ‘‘ کا معنی کسی ساکن چیز کو حرکت میں لانا ہے۔ یہ لفظ مردہ کو زندہ کرنے اور سوئے ہوئے کو جگانے کے لیے آتا ہے، یعنی پھر ہم نے انھیں اٹھایا، تاکہ ہم معلو م کریں کہ ان سونے والوں کے دو گروہوں میں سے کون سا گروہ ہے جو اپنے وہاں ٹھہرنے کی مدت کو زیادہ یاد رکھنے والا ہے۔ یہ ترجمہ اس وقت ہے جب ’’اَحْصٰى ‘‘ کو اسم تفضیل مانیں اور یہ معنی راجح ہے، کیونکہ باب افعال سے بھی ’’أَفْعَلُ‘‘ کے وزن پر اسم تفضیل آ جاتا ہے۔ دوسرا معنی اس صورت میں ہے کہ ’’ اَحْصٰى ‘‘ کو ماضی معروف قرار دیں، اس وقت معنی یہ ہو گا کہ دونوں گروہوں میں سے کون ہے جس نے اس مدت کو یاد رکھا ہے جو وہ ٹھہرے ہیں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کو گزشتہ، موجودہ اور آئندہ ہر چیز کا علم ہے کہ کیا ہوا، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو گا، مگر ظاہر ہے کہ یہ علم کہ فلاں کام واقع ہو چکا ہے، اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ کام واقع ہو جائے، یعنی تاکہ ہم اپنے علم کے مطابق اس کا واقع ہونا جان لیں۔