أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا
یا کوئی سونے کا گھر تیرے پاس ہوجائے یا تو آسمان پر (ہمارے سامنے) چڑھ جائے ، اور ہم تیرے چڑھنے پر پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے ، جب تک کہ تو ہم پر ایک کتاب نہ اتارے کہ ہم اسے پڑھ لیں تو کہہ مرا رب پاک ہے ، میں تو ایک بھیجا ہوا آدمی ہوں ۔
1۔ اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ ....: ’’ زُخْرُفٍ ‘‘ اصل میں زینت کو کہتے ہیں، یہاں یہ لفظ سونے کے معنی میں ہے، کیونکہ جو چیزیں زینت کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان میں سونا بہت قیمتی اور خوبصورت ہے۔ ’’ تَرْقٰى ‘‘ ’’رَقٰي يَرْقِيْ رُقْيَةً ‘‘ (ض) دم کرنا اور ’’ رَقِيَ يَرْقٰي رُقِيًّا ‘‘ (ع) چڑھنا۔ 2۔ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ ....: یہاں قرآن نے کفار کے چھ مطالبوں کا ذکر کیا ہے، جن کے ضمن میں کئی اور مطالبے ہیں۔ فرمایا، میرا رب ہر عیب اور عجز سے پاک ہے، وہ یہ سب کچھ کر سکتا ہے مگر اپنی مرضی سے۔ رہا مجھ سے مطالبے کرنا تو میں تو محض ایک بشر ہوں جو پیغام پہنچانے والا ہے، کیا تم کسی بشر کے متعلق بتا سکتے ہو کہ وہ اس قسم کے تصرفات کی طاقت رکھتا ہو اور پھر میرا کوئی اختیار بھی نہیں، نہ کوئی بات میری اپنی ہے، میں تو محض اللہ کا رسول، یعنی اس کی طرف سے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا ہوا ہوں اور اس کے حکم کا تابع ہوں، تو میں اس کے اذن کے بغیر یہ چیزیں کیسے لا سکتا ہوں۔ امام رازی کہتے ہیں کہ رسول کے سچا ہونے کے لیے تو ایک معجزہ ہی کافی ہوتا ہے اور آپ کو وہ معجزہ قرآن دیا گیا۔ اب اس کے بعد اگر متعدد معجزات کو معیار صدق قرار دیا جائے تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہو سکے گا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے تمام رسولوں نے ایسے موقع پر معذرت کر دی کہ یہ اللہ کا کام ہے، ہم تو محض بشر اور رسول ہیں۔