سورة الإسراء - آیت 86

وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی ہم نے تیری طرف نازل کی ہے اسے لے جائیں پھر تو اپنے لئے ہم پر کوئی وکیل نہ پائے کہ لائے ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَىِٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ ....: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک اور قدرت کا بیان فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کی طرف وحی کیا ہے سب لے جائیں، نہ آپ کے سینے میں رہے، نہ آپ کے کسی صحابی یا امتی کے سینے میں، نہ کسی کاغذ یا دوسری چیز میں، پھر اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے مقابلے میں آپ کو کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ : لیکن یہ تیرے رب کی رحمت ہے کہ وہ اسے لے نہیں گیا، بلکہ اسے تیرے پاس ہی رہنے دیا ہے۔ یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ معلوم ہوا قرآن قیامت تک باقی رہے گا، کوئی شخص اس کے تمام اوراق ختم کرکے بھی اسے ختم نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کا اصل ٹھکانا اہل علم کے سینے ہیں (دیکھیے عنکبوت : ۴۹) اور رب کا وعدہ بھی ہے کہ وہ اسے نہیں لے جائے گا، بلکہ اس کی حفاظت کرے گا، فرمایا : ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾ [ الحجر : ۹ ] ’’بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا: یہاں فضل کبیر اور دوسری جگہ فضل عظیم فرمایا : ﴿وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا ﴾ [ النساء : ۱۱۳ ] ’’اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر ہمیشہ سے (عظیم) بہت بڑا ہے۔‘‘ اس فضل کبیر و عظیم میں سے چند یہ ہیں کہ آپ پر کتاب و حکمت نازل فرمائی، اسے آپ کے اور آپ کی امت کے پاس قیامت تک کے لیے باقی رکھا، آپ کو اولادِ آدم کا سردار بنایا، تمام لوگوں کے لیے رسول اور آخری نبی بنایا، تمام نبیوں کی امامت اور معراج کا شرف بخشا، شفاعت کبریٰ اور مقام محمود عطا فرمایا۔ جس فضل کو اللہ تعالیٰ عظیم و کبیر فرمائے اسے کوئی کیسے شمار کر سکتا ہے۔