وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
اور روح کی بابت تجھ سے پوچھتے ہیں تو کہہ روح میرے رب کے حکم سے ہے ، اور تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے (ف ١) ۔
1۔ وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ....: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض یہود کے روح سے متعلق سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ دیکھیے بخاری، العلم، باب قول اللہ تعالٰی : ﴿ وما أوتیتم من العلم إلا قلیلا ﴾ : ۱۲۵ ۔ مسلم : ۲۷۹۴ ] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے، مگر یہ سورت مکی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ قریش نے یہود سے کہا : (( أَعْطُوْنَا شَيْئًا نَسْأَلُ عَنْهُ هٰذَا الرَّجُلَ، فَقَالُوْا سَلُوْهُ عَنِ الرُّوْحِ، فَسَأَلُوْهُ، فَنَزَلَتْ : ﴿وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ﴾ [الإسراء : ۸۵] قَالُوْا أُوْتِيْنَا عِلْمًا كَثِيْرًا، أُوْتِيْنَا التَّوْرَاةَ، وَمَنْ أُوْتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا، قَالَ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ : ﴿قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ ﴾ [الكهف : ۱۰۹ ])) ’’ہمیں کوئی چیز دو جس کے متعلق ہم اس آدمی سے سوال کریں؟‘‘ تو انھوں نے کہا : ’’اس سے روح کے متعلق پوچھو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے آپ سے پوچھا تو یہ آیت اتری : ﴿وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ﴾ انھوں نے کہا : ’’ہمیں تو کثیر علم عطا کیا گیا ہے، کیونکہ ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی۔‘‘ ابن عباس نے فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ﴿قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ ﴾ [ مسند أحمد :1؍255، ح : ۲۳۱۳، وصححہ الألبانی ] ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ یہ آیت پہلے مکہ میں اتری ہو (کیونکہ یہ سورت مکی ہے) پھر دوبارہ مدینہ میں اتری ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینہ میں جب یہودیوں نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی ہو کہ آپ یہ آیت پڑھ کر سنائیں۔ 2۔ روح کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے، مثلاً وحی (مومن : ۱۵)، قوت و ثابت قدمی (مجادلہ : ۲۲) جبریل علیہ السلام (شعراء : ۱۹۳)، قرآن (شوریٰ : ۵۲) اور مسیح علیہ السلام (نساء : ۱۷۱) زیر تفسیر آیت میں روح سے مراد وہ چیز ہے جس سے بدن کو زندگی حاصل ہوتی ہے، ہر شخص اس کا مشاہدہ کرتا ہے، کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ فرمایا ان سے کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے، یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی، وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مر گیا۔ اس کے علاوہ روح کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ اس میں نکتہ یہ بھی ہے کہ جب آدمی اللہ کے حکم سے پیدا ہونے والی اس مخلوق کی حقیقت نہیں جانتا، جو خود اس میں رہتی ہے تو وہ خالق کی حقیقت کیسے جان سکتا ہے؟ 3۔ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا: اس مفہوم کی طرف سورۂ کہف (۱۰۹) اور لقمان (۲۷) میں بھی اشارہ ہے۔ 4۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو صرف وہ باتیں بتائی ہیں جن کی انھیں ضرورت ہے اور جو انسانی عقل و فکر میں آ سکتی ہیں، اگرچہ انسانی فکر کے سوچنے پر کوئی پابندی نہیں، مگر اسے اپنی حدود میں رہنا لازم ہے۔ انسان نے ایسی ایسی ایجادات کیں جو بیان سے باہر ہیں مگر وہ اس راز (روح) کی حقیقت کو پانے سے عاجز رہا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز اور غیب کی چیز ہے، جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے؟ کیسے آئی؟ اور کس طرح جاتی ہے؟ کہاں سے آئی اور کہاں جاتی ہے؟ مخلوق کو صرف اتنا معلوم ہے جتنا اس علیم و خبیر نے بتایا ہے، اس سے آگے سب بے بس ہیں اور سب کا علم اللہ کے مقابلے میں اتنا ہے جتنا سمندر میں سے پرندے کی چونچ میں آنے والا پانی۔