سورة الإسراء - آیت 76

وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ لوگ تو تجھے زمین (مکہ) سے دل برداشتہ کرنے ہی لگے تھے تاکہ تجھے زمین سے نکالیں اور اس صورت میں وہ بھی تیرے بعد وہاں تھوڑے ہی دنوں رہیں گے ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ ....:’’ اِسْتَفَزَّ ‘‘ کا معنی کسی کو گھبراہٹ میں ڈال کر پھسلا دینا ہے۔ ’’ الْاَرْضِ ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے، مراد ارض مکہ ہے، یعنی جب قریش کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید سے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو انھوں نے آپ کو سخت تنگ اور پریشان کرنا شروع کر دیا، تاکہ آپ گھبرا جائیں اور مکہ سے نکل جائیں۔ 2۔ وَ اِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا: چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تو ڈیڑھ سال کے بعد ان کے بڑے بڑے سردار بدر میں مارے گئے، آپ کی بددعا سے اہل مکہ قحط اور خوف کا شکار ہو گئے، حتیٰ کہ آٹھ( ۸) ہجری میں خود مکہ بھی فتح ہو گیا، جس سے ان کی شان و شوکت اور حکومت خاک میں مل گئی۔ ایک مغرور قوم کے لیے یہ عذاب ہی کیا کم ہے کہ وہی شخص جسے انھوں نے نکالا تھا، ان پر فتح پا کر شہر کا مالک بن جائے۔