يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
جس دن ہم سب آدمیوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے پھر جس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائیگی وہ اپنی کتاب پڑھیں گے اور ان پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہ ہوگا ،
1۔ يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ: امام کا معنی پیشوا بھی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ﴾ [الفرقان : ۷۴ ] ’’اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔‘‘ دوسرا معنی کتاب ہے، فرمایا : ﴿وَ كُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ ﴾ [یٰسٓ : ۱۲ ] ’’اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں محفوظ کر رکھا ہے۔‘‘ پہلا معنی مراد ہو تو اہل ایمان کے امام انبیاء علیہم السلام ہوں گے اور کفار و مشرکین کے امام ان کے باطل سردار ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ﴾ [ القصص : ۴۱ ] ’’اور ہم نے انھیں ایسے سردار بنایا جو آگ کی طرف دعوت دیتے تھے۔‘‘ وہ لوگ جنھوں نے کتاب و سنت کے سوا کسی کی پیروی نہیں کی وہ اپنے امام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلائے جائیں گے اور ان سے بڑھ کر کون خوش نصیب ہو سکتا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہوں اور جنھوں نے کتاب و سنت کو چھوڑ کر کسی اور کی پیروی کی ہوگی، نیک ہو یا بد، وہ ان کے ساتھ بلائے جائیں گے، مگر وہ سب اپنے پیروکاروں سے صاف بری ہو جائیں گے، حتیٰ کہ شیطان بھی اپنے پیروکاروں سے بری ہونے کا اعلان کر دے گا۔ (دیکھیے ابراہیم : ۲۲) وہ نیک ائمہ اور بزرگ جو زندگی میں اپنی تقلید سے منع کرتے رہے اور کتاب و سنت کی پیروی کی تاکید کرتے رہے، وہ بھی اپنے ان جھوٹے پیروکاروں سے بالکل بری ہو جائیں گے، جنھوں نے اپنے اماموں کی بات مانی نہ کتاب و سنت پر عمل کیا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۵ تا ۱۶۷) اور احقاف (۶) اور اگر دوسرا معنی مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اس دن ہر شخص کو اس کی کتابِ اعمال کے ساتھ بلایا جائے گا۔ یہاں یہ معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ آگے کتاب کو دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔ 2۔ فَاُولٰٓىِٕكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ : دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے ہی سے انھیں آنے والی خیر و سعادت کا پتا چل جائے گا، چنانچہ وہ خوشی خوشی اسے پڑھیں گے اور دوسروں کو بھی دکھائیں گے۔ دیکھیے سورۂ حاقہ (۱۹)۔ 3۔ وَ لَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا : کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں باریک دھاگے کو’’ فَتِيْلًا ‘‘ کہتے ہیں، یعنی تھوڑا سا ظلم بھی نہیں ہو گا۔