قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا
پھر بولا دیکھ تو اس کو جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیگا تو میں سوائے تھوڑے لوگوں کے اس کی اولاد کی جڑ کاٹ ڈالوں گا ، (ف ٣) ۔
1۔ قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ....: ’’ اَرَءَيْتَكَ ‘‘اصل ’’أَرَأَيْتَ‘‘ ہی ہے، کاف حرف خطاب ہے، جو مخاطب کے مطابق بدلتا رہتا ہے، مثلاً مخاطب واحد مذکر ہو تو ’’أَرَأَيْتَكَ‘‘ ، تثنیہ مذکر ہو تو ’’أَرَأَيْتَكُمَا‘‘ اور جمع مذکر ہو تو ’’أَرَأَيْتَكُمْ‘‘ ، معنی سب کا یہی ہے کہ ’’کیا تو نے دیکھا‘‘ مگر مراد ہوتی ہے ’’ أَخْبِرْنِيْ‘‘ یعنی ’’مجھے بتا۔‘‘ ’’ اَرَءَيْتَكَ ‘‘ یہ اصل میں ’’حَنَكٌ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی جبڑا ہے۔ عرب کہتے ہیں ’’حَنَكْتُ الْفَرَسَ أَحْنُكُهُ‘‘ (باب ضرب و نصر) ’’وَاحْتَنَكْتُهُ‘‘ میں نے گھوڑے کے (نچلے) جبڑے میں رسی باندھی اور اسے اپنے پیچھے چلایا۔ مراد یہ ہے کہ میں اس کی اولاد کو لگام کی طرح جبڑے میں رسی باندھ کر اپنے پیچھے چلاؤں گا۔ مگر یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے: ’’ لَأَسْتَوْلِيَنَّ‘‘ ’’میں ضرور ان پر غالب ہوں گا‘‘ اور ’’لَأَسْتَأْصِلَنَّ‘‘ جو ’’اِسْتَأْصَلَتِ السَّنَةُ أَمْوَالَهُمْ‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے، یعنی قحط نے ان کے اموال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، ہلاک کر دیا۔ 2۔ یعنی نہایت جرأت و تکبر سے اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے بتا کہ یہ شخص جسے تو نے مجھ پر عزت بخشی، یعنی جب بہتر میں ہوں تو تو نے اسے مجھ پر عزت کیوں بخشی؟! اس میں آدم علیہ السلام پر حسد کا اظہار بھی ہے، اللہ کے فرمان کے مقابلے میں اپنے عقلی ڈھکوسلے قیاس سے تعمیل حکم کا انکار بھی اور تکبر وسرکشی کا اظہار بھی اور ان میں سے کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں۔ 3۔ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ....: اس کی تفصیل سورۂ اعراف کی آیات (۱۴ تا ۱۷) میں دیکھیں۔ ’’ اِلَّا قَلِيْلًا ‘‘ سے مراد اللہ کے مخلص بندے ہیں۔